دس لاکھ مہاجرین اس برس یورپ میں، آئی او ایم
18 دسمبر 2015خبر رساں ادارے اے پی کی انقرہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق رواں برس کے آغاز سے لے کر آج اٹھارہ دسمبر تک یورپ پہنچنے والے ایسے پناہ گزین، جو پناہ کی باقاعدہ درخواست دے چکے ہیں، ان کی کل تعداد 990761 ہو چکی ہے۔ جس رفتار اور تعداد میں مہاجرین یورپ کا رخ کر رہے ہیں، یہ تعداد آئندہ ہفتے تک ایک ملین، یا دس لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔
یہ اعداد و شمار بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین (آئی او ایم) کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں۔ آئی او ایم نے یہ بھی بتایا ہے کہ آٹھ لاکھ مہاجرین کا تعلق مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک سے ہے اور یہ تارکین وطن ترکی کے راستے بحیرہ ایجیئن عبور کرتے ہوئے یونان میں داخل ہوئے۔
ان تارکین وطن میں سے چار لاکھ پچپن ہزار کا تعلق شام سے ہے جو خانہ جنگی کے باعث اپنا ملک چھوڑ کر دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔
آئی او ایم کے ترجمان جوئل مِلمان نے یہ بھی بتایا کہ صرف بدھ کے روز تیتالیس سو پناہ گزین کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجئن کا خطرناک راستہ طے کرتے ہوئے یونانی جزیروں تک پہنچے۔ اس روز تین ہزار پناہ کے متلاشی افراد لیسبوس جزیرے پر پہنچے۔
جنگ اور غربت کے باعث اپنے ممالک سے ہجرت کر کے بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ یونان پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے کے دوران صرف شامی، عراقی اور افغانی تارکین وطن کو ہی بلقان راستوں سے شمالی یورپ کی جانب سفر کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ جس کے باعث ہزاروں مہاجرین یونان میں ہی رکنے پر مجبور ہیں۔ ایتھنز حکومت کو ان پناہ گزینوں کے لیے رہائش اور دیگر سہولیات مہیا کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
رواں برس یورپ کی جانب ہجرت کرنے والے مہاجرین کی تعداد 2014ء کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔ گزشتہ برس 240000 تارکین وطن یورپ پہنچے تھے۔
آئی او ایم کے مطابق سرد ہوتے ہوئے موسم اور ناموافق سفری صورت حال کے باوجود اب بھی روزانہ ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن سمندر کا خطرناک راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ مِلمان کا کہنا ہے، ’’ہم یہ نشاندہی بھی کرنا چاہیں گے کہ دسمبر کے مہینے میں بحیرہ ایجئن کا سمندری سفر کرنا نہایت جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
اعداد و شمار کے مطابق روزانہ کم از کم سات تارکین وطن سمندر کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اکتوبر کے مہینے سے اب تک 422 تارکین وطن سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔