روس: پارٹنر یا خطرہ، نیٹو ایک دوراہے پر
26 جون 2014برسلز منعقدہ اس ہنگامی اجلاس کا اصل مقصد یوکرائن کی تازہ ترین صورتِ حال پر تبادلہء خیال کرنا تھا۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار بیرنڈ رِیگرٹ کے خیال میں نیٹو کو روس کے ساتھ اپنے آئندہ کے تعلقات کے حوالے سے جلد از جلد ایک نئی حکمتِ عملی وضع کرنا ہو گی۔
وہ لکھتے ہیں: ’’نیٹو کے وُزرائے خارجہ نے مختصر نوٹس پر بلائے گئے اپنے ہنگامی اجلاس میں یوکرائن کی تازہ ترین صورتِ حال پر تبادلہء خیال تو ضرور کیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہاں کے حالات پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے اس دفاعی اتحاد کے امکانات محدود ہیں۔ آیا یہ مغربی دفاعی اتحاد روس کو آئندہ ایک پارٹنر کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے یا ایک خطرے کے طور پر، اس سوال کا برسلز منعقدہ اجلاس میں کوئی جواب سامنے نہ آ سکا۔ اس سلسلے میں دستاویزات اس موسمِ گرما میں مرتب کی جائیں گی، جن پر مغربی دفاعی اتحاد کی طرف سے کسی رد عمل کا اظہار ستمبر میں مجوزہ نیٹو سربراہ اجلاس میں ہی ہو سکے گا۔
ایک بات البتہ ابھی سے واضح ہے اور وہ یہ کہ مستقبل قریب میں نیٹو میں مشرقی یورپ کے مزید ممالک کی شمولیت کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ موجودہ حالات میں جارجیا یا یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت کے حوالے سے نہ صرف رکن ملکوں کو قائل کرنا مشکل ہو گا بلکہ روس کی طرف سے بھی شدید مزاحمت دیکھنے میں آئے گی۔
یوکرائن جیسے حالات نیٹو کے بس سے باہر
نیٹو کے اندرونی حلقوں میں اس امر کا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ یوکرائن کی طرح کے حالات میں، جہاں کوئی واضح فوجی مخالفین موجود نہیں ہیں، حالات سے نمٹنا اِس مغربی دفاعی اتحاد کے بس سے باہر ہے۔ علیحدگی پسندوں کے غیر منظم گروہوں پر قابو پانے کے لیے نیٹو کے پاس نہ تو کوئی مؤثر حکمتِ عملی ہے اور نہ ہی مناسب وسائل۔
سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ نیٹو روسی فوج کی جانب کیا طرزِ عمل اختیار کرے، جو سرحد پر پس منظر میں رہتے ہوئے علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی تو کر رہی ہے لیکن خود لڑائی میں شریک نہیں ہے؟ بیس سال سے مغربی دفاعی اتحاد روس کے ساتھ ایسے تعلقات کی داغ بیل ڈالنے میں مصروف رہا ہے، جنہیں سلامتی کے شعبے میں شراکت کا نام دیا جا سکے۔ اب یوکرائن کے سنگین بحران اور روس کی جانب سے کریمیا کے علاقے کو اپنے ساتھ ملا لینے سے یہ اعتماد بری طرح کی بد اعتمادی میں بدل چکا ہے۔ تو کیا اچھے دنوں کے روس نیٹو تعلقات آئندہ کے اشتراکِ عمل اور بقائے باہمی کے لیے بھی بنیاد بن سکتے ہیں؟
سرِدست نیٹو کے زیادہ تر رکن ممالک روس کے ساتھ پہلے سے طے شُدہ اصولی معاہدے سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں جبکہ کچھ دیگر رکن ملک جیسے کہ پولینڈ اس معاہدے میں ترمیم پر زور دیتے ہیں تاکہ نیٹو کے فوجی دستے مستقل طور پر پولینڈ، خطہء بلقان یا پھر رومانیہ میں تعینات کیے جا سکیں۔ جلد نہیں تو ستمبر کے سربراہ اجلاس میں تو نیٹو کو ضرور اس نکتے پر غور کرنا ہو گا۔
مشترکہ حکمتِ عملی کی بجائے نیٹوکی صفوں میں دراڑ
مشرقی سرحدوں پر پیش آنے والے حالات سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے نیٹو کو سب سے زیادہ ضرورت آپس میں اتحاد اور یک جہتی کی ہے۔ نیٹو کے اندر باہمی یک جہتی کی صورتِ حال آج کل زیادہ اچھی نہیں ہے۔ امریکا کا یہ اصرار بڑھتا جا رہا ہے کہ یورپی ملکوں کو زیادہ مالی وسائل فراہم کرنے چاہییں۔ واشنگٹن میں لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ مثلاً یوکرائن کے تنازعے میں بھی یورپی ممالک اپنے براعظم کی سلامتی کے لیے ہمیشہ امریکی فوجیوں اور ساز و سامان ہی پر انحصار کریں؟ وائٹ ہاؤس کے خیال میں یورپی ملکوں کو اپنا دفاع خود کرنا چاہیے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے برسلز میں واضح کر دیا کہ اُن کے خیال میں یوکرائن اس دنیا کے بہت سے بحرانوں میں سے محض ایک بحران ہے۔ اس دورے میں کیری کی زیادہ تر توجہ عراق اور وہاں دہشت گردوں کی پیشقدمی پر مرکوز رہی۔ آیا عراق میں پھر کوئی فوجی تنازعہ کھڑا ہو جانے کی صورت میں یورپی ممالک امریکا کا ساتھ دیں گے، اس سلسلے میں بھی کوئی مشترکہ حکمتِ عملی نظر نہیں آ رہی۔ افغانستان میں اپنے سب سے بڑے مشترکہ مشن کے ممکنہ خاتمے کے بعد نیٹو ممالک کو 2014ء کے بعد باہمی اتحاد اور یک جہتی کی کوئی نئی علامت تلاش کرنا پڑے گی۔‘‘