صرف شامی باشندے ہی پناہ کے حقدار کیوں ہیں؟
27 فروری 2016چوبیس سالہ جمشید بھی ایک ایسا ہی افغان تارک وطن ہے جو لاکھوں روپے خرچ کر کے یونان تک تو پہنچ گیا، لیکن اب وہ اپنی منزل جرمنی کی جانب سفر جاری نہیں رکھ سکتا کیوں کہ مقدونیہ نے یونان سے متصل اپنی سرحد افغان پناہ گزینوں کے لیے بھی بند کر دی ہے۔
ہمیں وطن واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن
لاکھوں مہاجرین یورپ بھیج دیں گے، ایردوآن کی دھمکی
جمشید کابل کا رہنے والا ہے اور وہاں وہ امریکی فوج کے لیے بطور مترجم کام کرتا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ ایک گفتگو میں جمشید کا کہنا تھا، ’’جب ہم مقدونیہ کی سرحد پر پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ افغان شہری سرحد پار نہیں کر سکتے، صرف شامی مہاجرین کو آگے جانے کی اجازت ہے۔ یہ تو سراسر زیادتی ہے۔‘‘
تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق بلقان کی ریاستوں نے بھی اپنے اپنے علاقے سے گزر کر مغربی یورپ کی جانب سفر کرنے والے تارکین وطن کی یومیہ حد مقرر کر دی ہے۔ مقدونیہ، سربیا، کروشیا اور سلووینیہ نے مشترکہ فیصلہ کیا ہے کہ روزانہ صرف 580 تارکین وطن کو ان ممالک میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے مطابق جنوری سے لے کر فروری کے وسط تک یونان میں ایک لاکھ سے زائد تارکین وطن پہنچے۔ ان میں سے 44 فیصد کا تعلق شام، 29 فیصد کا افغانستان جب کہ تین فیصد کا تعلق پاکستان سے ہے۔
شامی تارکین وطن کو سفر جاری رکھنے کی اجازت دینے اور افغان باشندوں پر پابندی لگائے جانے کے حوالے سے جمشید کا کہنا تھا، ’’شام میں پانچ سال سے خانہ جنگی جاری ہے جب کہ افغانستان میں پچھلے تیس برس سے جنگ ہو رہی ہے۔ دولت اسلامیہ (داعش) شام میں ہے تو افغانستان میں بھی شدت پسند گروہ سرگرم ہیں۔ شام اور افغانستان کی صورت حال میں فرق کیا ہے؟‘‘
مقدونیہ کی حکومت کا کہنا ہے کہ افغان تارکین وطن پر پابندی دیگر ممالک کی جانب سے افغان تارکین وطن کو واپس بھیجنے کے بعد لگائی گئی ہے۔ ان تارکین وطن نے خود کو افغان شہری ظاہر کیا تھا لیکن ان کا تعلق پاکستان اور ایران سے تھا۔
بائیس سالہ محمد کا تعلق بھی افغانستان سے ہے اور وہ اپنے ملک میں انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ محمد کا کہنا ہے کہ مقدونیہ کی پولیس افغان شہریوں سے امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔ محمد کے مطابق، ’’انہوں نے ہم سے پوچھا کہ ہمارا تعلق کس ملک سے ہے، ہم نے بتایا کہ افغانستان سے، تو انہوں نے بغیر کاغذات دیکھے ہمیں یہ کہہ دیا کہ واپس چلے جاؤ۔‘‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بلقان کی ریاستوں کی جانب سے سرحدوں کی بندش پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بان کی مون کا کہنا تھا کہ سرحدی پابندیاں مہاجرین سے متعلق بین الاقوامی کنونشن سے متصادم ہیں۔
یورپی یونین نے بھی موجودہ صورت حال کے پیش نظر خبردار کیا ہے کہ بلقان کی ریاستوں کی جانب سے تارکین وطن کی یومیہ حد مقرر کیے جانے کے بعد اگر ترکی کے ساتھ مذاکرات بھی ناکام ہو گئے تو پناہ گزینوں کا بحران ’تباہ کن‘ صورت اختیار کر لے گا۔