1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کا کورونا ريليف فنڈ کامياب يا ناکام؟

عبدالستار، اسلام آباد
15 اپریل 2020

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے مخالفین کا دعویٰ ہے اعتماد کی کمی اور غير مطمئن کارکردگی کی وجہ سے عوام نے ان کے کورونا ریلیف فنڈ میں زيادہ پیسے جمع نہیں کرائے۔ ان کے حامی ايسے تاثرات کو رد کرتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/3awct
Imran Khan Pakistan Premierminister
تصویر: picture-alliance/AA/Iranian Presidency

پاکستانی وزیر اعظم نے کورونا ريليف فنڈ کچھ ہی دن قبل قائم کیا تھا، جس کا مقصد وبا سے نمٹنے کے ليے چندہ جمع کرنا ہے۔ عمران خان سياسی کيريئر سے قبل بھی ايک مشہور شخصيت تھے اور اسی سبب ماضی ميں مختلف مقاصد کے ليے چندہ جمع کرنے کی مہمات کاميابی سے چلا چکے ہيں۔ ان کے حامی حلقے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کو ان کی ايسی ہی کوششوں کا نتيجہ قرار ديتے ہيں۔

عمران خان کے مخالفین کا الزام ہے کہ ان کی کارکردگی صفر ہے اور عوام ان پر اب اس طرح اعتماد نہیں کرتے جیسے پہلے کيا کرتے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سابق سیکریٹری اطلاعات اور بانی رکن اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ متعدد عوامل نے عوام کو عمران خان سے بدظن کیا۔ انہوں نے کہا، ''حکومت کی کارکردگی ناقص ہے۔ پھر پارٹی فنڈز کےحوالے سے جو کیس الیکشن کمیشن میں چل رہا ہے اور جس میں پی ٹی آئی کئی چیزوں کو چھپانا چاہ رہی ہے، اس کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانیوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔ عمران خان ان سے تو شفاعیت، دیانت اور احستاب کی بات کرتے رہے ہيں لیکن اب وہ خود ان سے بھاگ رہے ہیں۔‘‘

اکبر ایس بابر کا مزید کہنا تھا کہ بیرون ملک مقيم پاکستانی ملک ميں اس طرز کی جمہوریت دیکھنا چاہتے ہیں، جيسی یورپ اور امریکا میں ہے۔ ''لیکن اب ان کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب صرف عمران خان کی نعرے بازی تھی اور خود وہ کسی شفاعیت یا احتساب پر یقین نہیں رکھتے۔‘‘ اکبر ایس بابر نے مزيد کہا کہ بار بار چندے کی اپيل سے بھی بیرون ملک مقيم پاکستانی شايد اکتا گئے ہیں۔

پاکستان پيپلز پارٹی کے رہنما اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے بھی پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی کو ہدف تنقید بنايا۔ انہوں نے کہا، ''عوام نے دیکھ لیا کہ پی ٹی آئی نے اب تک کیا کیا ہے۔ لوگ اب عمران خان پر اعتماد نہیں کرتے۔ خان صاحب کا کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے بھی رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے۔ موصوف نے اس کو ایک چھوٹا سے نزلہ قرار دے کر اس کی سنگینی کو نظر انداز کیا اور عوام نے اس رویے کو پسند نہیں کیا۔ تو وہ پھر ان کو چندہ کیوں دیں گے۔‘‘

پاکستان مسلم ليگ ن کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ عمران خان کے حوالے سے یہ جھوٹی کہانی گھڑی گئی کہ وہ چندہ جمع کرنے کے ماہر ہیں۔ ''حقیقت تو یہ ہے کہ بيرون ملک مقيم پاکستانیوں کی اکثریت مشرق وسطیٰ میں رہتی ہے جو ان کو کوئی چندہ نہیں دیتی۔ یورپ و امریکا میں بھی عوام کی اکثریت ان کو چندہ نہیں دیتی۔ صاحب حيثيت پاکستانیوں کی چھوٹی سے اقلیت ہے، جو انہیں چندہ دیتی تھی لیکن عمران خان نے جس طرح معیشت کا جنازہ نکالا، اس کی وجہ سے انہوں نے بھی اس بار چندہ نہیں دیا۔‘‘

پرویز رشید کا مزيد کہنا تھا کہ عمران خان کی چندہ جمع کرنے کی یہ تیسری بڑی ناکام مہم ہے۔ ''اقتدار میں آنے کے فوراً بعد عمران خان نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ایک ایک ہزار ڈالر دینے کی اپیل کی تھی لیکن انہیں کچھ نہیں ملا۔ پھر انہیں ڈیم فنڈ میں بھی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ موجودہ چندہ مہم بھی بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور اس کی وجہ ان کی نا اہلی اور خراب کارکردگی ہے۔‘‘

کورونا وائرس: پاکستان میں لاکھوں مزدور بے روزگار

تاہم عمران خان کے قریبی سینیٹر فیصل جاوید خان اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں کہ عوام وزير اعظم کے کورونا ریلیف فنڈ ميں چندہ نہیں دے رہی۔ انہوں نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''کسی اور نے اگر چندے کی اپیل کی ہوتی، تو شايد لوگ آگے نہ آتے لیکن انہیں معلوم ہے کہ یہ اپیل ایک ایسے شخص کی طرف سے آئی ہے جس کی ايمانداری کی زندہ و جاوید مثال شوکت خانم ہے، جہاں ہر سال لاکھوں افراد کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں سے بھی اور پاکستانی عوام سے بھی چندہ مل رہا ہے۔‘‘

سینیٹر فیصل جاوید خان کا مزيد کہنا تھا کہ چندہ جمع کرنے کے ليے بینکوں میں ڈراپ بکسز رکھوائے جا رہے ہیں۔ ''اس کے علاوہ لوگ آن لائن بھی چندہ دے رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ملک میں لاک ڈاؤن اور کورونا کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہیں، جن کو حکومت نے ایک شفاف طریقے سے مالی امداد پہنچائی۔ چند ہی ايام ميں اس فنڈ میں ایک ارب سے زائد روپے جمع ہو چکے ہيں۔ اب ان رقوم کو بھی غریب عوام کی خدمت پر خرچ کیا جائے گا۔‘‘

واضح رہے کہ پاکستان گزشتہ انیس ماہ سے پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے اور اس وبا کی وجہ سے یہ بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔ کئی ماہرین کا يہ بھی خیال ہے کہ صحت کے موجودہ بجٹ میں مختص کی گئی رقوم کورونا کی وبا سے نمٹنے کے ليے کافی نہیں اور اس سلسلے ميں اضافی فنڈز درکار ہیں۔

’روزگار نہیں ہوگا تو بھوکے مر جائیں گے‘

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید