فوجی عدالتیں، فیصلہ محفوظ: ’اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟‘
26 جون 2015سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سترہ رکنی فل کورٹ نے اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔
عدالت میں ججوں کی تقرری کے طریقۂ کار کے خلاف اٹھارہ جبکہ فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف پانچ درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ ان درخواست گزاروں میں سپریم کورٹ بار ایسوی ایشن اور چاروں صوبوں کی ہائیکورٹ بار ایسوی ایشنز بھی شامل تھیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پیروی عاصمہ جہانگیر جبکہ لاہور ہائیکورٹ بار کی درخواست کی پیروی حامد خان نے کی۔
درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کا قیام ملکی آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے کے ذریعے اپنے ارکان پارلیمنٹ پر دباؤ ڈال کر آئینی ترمیم کرائی۔ خیال رہے کہ تریسٹھ اے کے تحت پارٹی سربراہ کے فیصلے کے خلاف ووٹ دینے یا سیاسی وفاداری تبدیل کرنے والا رکن پارلیمنٹ نا اہل ہو جاتا ہے۔ ان درخواست گزاروں نے فوجی عدالتوں کے کام کرنے کے طریقہٴ کار کو بھی قانون اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔
درخواست گزاروں کے کئی دن تک جاری رہنے والے دلائل کے بعد اٹارنی جنرل نے گزشتہ پیر کو حکومت کی طرف سے فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں دلائل کا آغاز کیا تھا۔ جمعے کے روز اپنے دلائل سمیٹتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ مقننہ کی طرف سے کی گئی قانون سازی کو عدلیہ کا لعدم قرار نہیں دے سکتی۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازی کا اختیار عوام کے پاس ہے، جسے وہ اپنی منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوامی فورم ہونے کے سبب پارلیمنٹ قوم اور ملک کے مفاد میں ہیں۔
بنچ میں شامل جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے پارلیمانی جمہوریت کے لیے موزوں ہے یا نہیں، اس کی تشریح ہم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کا کوئی بنیادی خاصہ ہو سکتا ہے تو وہ پارلیمانی جمہوریت ہے۔
بنچ میں شامل جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس میں کہا کہ ملک میں جمہوریت کا تسلسل نہیں رہا۔ آمروں نے سیاسی جماعتوں کو تقسیم کر کے کنگ پارٹیاں بنائیں۔ مشرف کے دور میں رکن پارلیمنٹ کے لیے بی اے کی شرط لگا دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے وقت بی اے کی شرط ہوتی تو قائد اعظم بھی نا اہل ہو جاتےکیونکہ قائد اعظم کے پاس بی اے کی نہیں، بیرسٹر کی ڈگری تھی۔ بی اے کی شرط کے باعث بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ بھی نا اہل ہو گئے۔ پرویزمشرف کے دور میں تین بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ جلا وطن تھے جبکہ موجودہ وزیراعظم بھی سعودی عرب یا لندن میں جلا وطن تھے۔ مشرف کے دور میں بڑی سیاسی جماعتیں توڑ کر گروپ بنائے گئے۔ اس عمل کے سدباب کے لیے آئین میں 63 اے کو متعارف کرایا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ جمہوریت مضبوط ہونے کے ساتھ اس آرٹیکل کو تبدیل کر دیا جائے۔
جسٹس فائز نے ریمارکس دیے کہ پوری قوم چاہتی ہے کہ دہشت گردی کا جلد سے جلد خاتمہ ہو لیکن فوجی عدالتوں میں مقدمات بھیجنے کا اختیار وفاقی حکومت نے اپنے پاس رکھا ہے جس کی وجہ سے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہو گی۔
سماعت کے دوران اسلام آباد اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز نے بھی اٹارنی جنرل کے دلائل کی تائید کی جس کے بعد عدالت نے ان درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ عدالت نے یہ نہیں بتایا کہ ان درخواستوں پر فیصلہ کب سنایا جائے گا۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے عاصمہ جہانگیر کی درخواست پر فوجی عدالتوں کی جانب سے دی جانے والی سزاؤں پر عملدرآمد کے خلاف حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے۔ اسی سبب ان فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے چھ دہشت گردوں کی سزا کی آرمی چیف سے توثیق کے باوجود ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
عاصمہ جہانگیر نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف درخواستوں پر عدالت عظمٰی کا فیصلہ آنے تک فوجی عدالتوں کی دی گئی سزاؤں پر عملدرآمد کو رکوائے۔