فوجی مشقوں سے مسلم ممالک میں عسکری تعاون بہتر ہو گا، ریاض
22 فروری 2016تھنڈر آف دی نارتھ نامی ان مشقوں کو مشرق وسطیٰ میں اب تک کی سب سے بڑی وار گیمز قرار دیا جا رہا ہے۔ خلیجی عرب ممالک کے علاوہ پاکستان، مصر، مراکش، بنگلہ دیش، اردن، سوڈان اور سنیگال کی افواج بھی ان مشقوں میں شریک ہیں۔
مجموعی طور پر ڈیرھ لاکھ فوجی ان مشقوں کا حصہ ہیں۔ ان عسکری مشقوں میں بحری، بری اور فضائی افواج حصہ لے رہی ہیں۔
سیاسی ناقدین کے مطابق سعودی عرب مشرقی وسطیٰ میں جاری تنازعات میں ایک نیا عسکری اتحاد بنانے کی کوشش میں ہے جب کہ ریاض حکومت کو یوں خطے میں ایران کے اثرورسوخ سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔
سعودی عرب کی کابینہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے مشترکہ تعاون سے مسلم ممالک کے مابین عسکری تعاون بہتر ہو گا اور موجودہ دور کے چینلجز سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔
سعودی حکام نے ان مشقوں میں شریک ممالک کی افواج کی تیاری اور عزم کی بھی تعریف کی ہے۔ شیعہ ملک ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین حالیہ جوہری ڈیل کی وجہ سے سنی ملک سعودی عرب کو ایسے تحفظات لاحق ہیں کہ ایران علاقائی سطح پر اپنا اثرورسوخ پھیلا سکتا ہے۔
اس ضمن میں شامی خانہ جنگی اور یمن میں جاری بحران ریاض حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بھی ہیں۔ ایران نہ صرف شامی صدر بشار الاسد کی حمایت کرتا ہے بلکہ وہ یمن میں حوثی باغیوں کو بھی معاونت فراہم کر رہا ہے۔
دوسری طرف سعودی عرب شامی باغیوں کا حامی ہے اور یمن میں سعودی نواز منصور ہادی کی حکومت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔
سکیورٹی مبصرین کے مطابق مشرق وسطیٰ میں امریکا کا کم ہوتا ہوا کردار بھی ریاض کے لیے تشویش کا باعث ہے، اس لیے وہ علاقائی سطح پر نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہے۔
ان فوجی مشقوں میں زیادہ تر فوجیوں کا تعلق سعودی عرب سے ہی ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد مستقبل میں خفیہ معلومات کے تبادلے کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی تعاون کرے گا۔