فیس بُک پر آئی ایس آئی کی حمایت میں مہم
25 جون 2011
آئی ایس آئی پیج کے نام سے فیس بک پر موجود ایک صفحے پر آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی ایک بڑی تصویر لگائی گئی ہے۔ قرآنی آیات سے شروع ہونے والے اس صفحے پر دہشت گردی کی کسی واردات کی صورت میں رابطے کے لیے ٹیلی فون نمبرز بھی دیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ آئی ایس آئی کے مختلف شعبوں اور اس کے سابق ڈائریکٹر جنرلز کے نام بھی موجود ہیں۔
پاکستان میں ڈرون حملوں کا ذمہ دار کون؟ اس صفحے پر موجود اس سوال کے جواب میں 1119 رائے دہندگان نے اسلام آباد کی جمہوری حکومت کو قصور وار ٹھہرایا ہے۔ ایک سو چھ افراد نے اس کی ذمہ دار امریکی حکومت کو قرار دیا ہے جبکہ صرف بیالیس ووٹرز اس کی وجہ دہشت گردوں کو قرار دے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سوال نامے میں آرمی کا آپشن ہی نہیں رکھا گیا۔
آئی ایس آئی پیج نامی فیس بک پر کئی خبریں بھی چسپاں کی گئی ہیں۔ ایسی ہی ایک خبر میں اسامہ بن لادن کی فیملی کی یمن واپسی کی اطلاع ہے۔ ایک دوسری خبر میں وزیر اعظم گیلانی کی جگہ کسی اور قابل شخص کو یہ عہدہ دینے کی اپیل کی گئی ہے۔ ان صفحات پر ایک قاری نے بریگیڈیئر علی کو حراست میں لینے جیسے واقعات کو منظر عام پر نہ لانے کی تجویز دی ہے۔
آئی ایس آئی کی حمایت میں بعض دیگر صفحات پر زیادہ تر لوگوں نے فوج کے نقطہء نظر کی حمایت کی ہے مگر بعض قارئین نے دل کی بھڑاس بھی نکالی ہے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر عظمت علی نے بتایا کہ عام لوگ آرمی اور حساس اداروں کے نام سے غیر قانونی طور پر ویب سائٹس قائم کرتے رہتے ہیں۔ بریگیڈیئر علی کا کہنا ہے کہ ان افراد کے خلاف بعض اوقات کارروائی بھی کی جاتی ہے لیکن ان کے بقول اس عمل کو مکمل طور روکنا ممکن نہیں۔ ان کے مطابق پاکستان آرمی ان ویب سائٹس پر پیش کیئے جانے والے خیالات کی ذمہ دار نہیں۔ ان کے بقول پاکستان آرمی اور آئی ایس پی آر کی ویب سائٹس ہی پاکستانی فوج کی ترجمانی کرتی ہیں ۔
اگرچہ ان صفحات پر پیش کیئے جانے والےزیادہ تر خیالات میں امریکہ مخالف جذبات اور حکومت سے ناگواری نمایاں ہے لیکن عسکری اور سیاسی امور کے ممتاز ماہر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے کہ اگر فیس بک کے ان صفحات کے ذریعے آئی ایس آئی کی امیج کو بہتر کرنے کی کوشش کی بھی جارہی ہے تو یہ بڑا محدود کام ہے۔ ان کے مطابق انٹرنیٹ پر کی جانے والی ان کوششوں سے ایک مہم کا تاثر تو ملتا ہےمگر ان کے بقول کسی بھی ادارے کی ساکھ کی بحالی کے لیئے اس کی کارکردگی کو بہتر بنانا بھی بہت ضروری ہے۔
ان کے بقول فیس بک پر پیش کی جانے والی ان آراء کو رائے عامہ کے حقیقی جائزے کے حوالے سے مصدقہ قرار نہیں دیا جا سکتا اور نا ہی ان صفحات پر موجود مواد سے حساس اداروں کی پالیسیوں کے بارے میں حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔
رپورت: تنویر شہزاد،لاہور
ادارت شادی خان سیف