قطر اور بحرین کا سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ
13 اپریل 2023بحرین کی نیوز ایجنسی (بی این اے) اور قطر کی وزارت خارجہ نے 12 اپریل بدھ کے روز اعلان کیا کہ خلیجی ممالک قطر اور بحرین سفارتی تعلقات دوبارہ شروع کریں گے۔ قطر کے خلاف عرب ممالک کی جانب سے بائیکاٹ ختم کیے جانے کے دو برس سے بھی زیادہ عرصے کے بعد یہ اعلان کیا گیا ہے۔
’خلیجی ممالک میں دوبارہ سیاسی تعاون کا عمل شروع‘
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے جنوری 2021 میں ہی قطر پر عائد ساڑھے تین برس کی پابندی ختم کر دی تھی۔ تاہم اس کے بعد بحرین نے صرف سفر اور تجارتی روابط ہی بحال کیے اور سفارتی تعلقات التوا کے شکار رہے۔
چھ خلیجی عرب ریاستوں میں یہودی برادریوں کا علاقائی اتحاد
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں خلیج تعاون کونسل کے ہیڈکوارٹر میں اپنے وفود کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد بحرین اور قطر نے سفارتی تعلقات کی بحالی کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے سرکاری بیانات جاری کیے۔
سعودی ناکہ بندی بڑا دھچکا تھی، مگر قطر پھر بھی کامیاب رہا
خلیج تعاون کونسل چھ ممالک پر مشتمل ہے، جس کے قطر اور بحرین بھی رکن ہیں۔
قطر کی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پڑوسیوں نے "اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ "
قطرکا سفارتی تنازعہ و ناکہ بندی، معاشی ترقی بدستور جاری
بیان میں مزید کہا گیا، "فریقین نے اس بات کی توثیق کی ہے کہ یہ قدم دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے اور خلیجی اتحاد و انضمام کو وسعت دینے کی باہمی خواہش کا نتیجہ ہے۔"
قطر اور سعودی عرب کے درمیان پہلا رابطہ بحال ہوتے ہی معطل
بحرین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق، بحرین کی وزارت خارجہ نے بھی اسی طرح کا ایک بیان جاری کیا۔
قطر کی ناکہ بندی کا خاتمہ
سن 2017 میں سعودی عرب سمیت خلیج کے بیشتر ممالک نے قطر کے ساتھ تمام تعلقات اس الزام کے تحت منقطع کر لیے تھے کہ دوحہ ان اسلامی تحریکوں کی حمایت کرتا ہے جس سے انہیں خطرہ لاحق ہے۔ اس پر یہ بھی الزام تھا کہ اس کے ترکی اور ایران کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں، جنہیں یہ ممالک اپنے لیے خطرہ مانتے تھے۔
اس کے علاوہ قطر کے ساتھ چاروں عرب ریاستوں کے اپنے انفرادی اختلاف بھی تھے۔ تاہم اس بائیکاٹ کا قطر کی معیشت پر بہت کم اثر پڑا۔ خلیجی ملک قطر نے گزشتہ برس فٹبال ورلڈ کپ کی شاندار میزبانی بھی کی تھی، جو قدرتی گیس کے وسیع ذخائر کی وجہ سے دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔
سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے ملک سعودی عرب نے اس بائیکاٹ کی قیادت کی تھی اور اسی نے قطر کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی کوششوں کی بھی قیادت کی اور مصر کے ساتھ مل کر سفارتی تعلقات دوبارہ قائم کر لیے۔
بحرین میں شیعہ آبادی سنی مسلم حکمرانی والی بادشاہت کے خلاف مزاحمت بھی کرتی رہی ہے اور چونکہ قطر کے ایران کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں، اس لیے بحرین بے چینی کا شکار رہا ہے۔ بحرین اور قطر کے درمیان بعض علاقائی تنازعات بھی ہیں۔
شامی وزیر خارجہ کا دورہ سعودی عرب
ادھر شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد بدھ کے روز سعودی عرب کے دورے پر جدہ پہنچے، جنہیں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے آنے کی دعوت دی تھی۔
دمشق اور ریاض کے درمیان تعلقات بڑھ رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی دونوں میں سفارتی تعلقات کی بحالی کا امکان بھی بڑھ رہا ہے۔
سعودی عرب کی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق دونوں رہنما ملاقات کے دوران، "شام کے بحران کے سیاسی حل تک پہنچنے کی کوششوں پر بات چیت کریں گے، جس سے شامی اتحاد، سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھا جا سکے۔"
تیونس اور شام میں سفارتی تعلقات بحال
اس دوران شام اور تیونس نے بھی دونوں ملکوں میں اپنا سفارتی مشن دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا ہے۔
گزشتہ فروری میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد سے شام عرب ممالک کے ساتھ برسوں کی سفارتی سرد مہری کے بعد تعلقات بحال کرنے کی کوشش میں ہے۔
بدھ کے روز دمشق اور تیونس کی طرف سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان کے مطابق شام تیونس میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول رہا ہے اور سفارتی مشن میں ایک سفیر بھی مقرر کرے گا۔
ایک ہفتے قبل ہی کی بات ہے تیونس کے صدر قیس سعید نے شام کے ساتھ سفارتی تعلقات دوبارہ شروع کرنے کی اپنی کوششوں کا اعلان کیا تھا جس کے بعد یہ مشترکہ بیان سامنے آیا ہے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)