ملک بدری مہاجرین کے بحران کا واحد حل ہے، زیمان
13 فروری 2016چیک جمہوریہ کے صدر میلوش زیمان اس سے قبل بھی بارہا مشرق وسطیٰ سے آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں۔ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے اکہتر سالہ زیمان گزشتہ برس انتہائی دائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے مہاجرین اور اسلام کے خلاف منعقدہ ایک ریلی میں بھی شریک ہو چکے ہیں۔
جرمنی میں پاکستانیوں کو سیاسی پناہ ملنے کے امکانات کتنے؟
مہاجرین کی ملک بدری میں تعاون کرو، ورنہ امداد بند
سلوواکیہ کے دارالحکومت براٹسلاوا میں منعقدہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے زیمان کا کہنا تھا، ’’یورپی یونین پناہ گزینوں کے بحران کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔‘‘
زیمان کے الفاظ میں اس بحران کا حل کچھ یوں ہے، ’’اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ اقتصادی بنیاد پر ہجرت کرنے والوں کو فی الفور ملک بدر کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ مذہبی منافرت پھیلانے اور مذہبی بنیادوں پر تشدد کی تبلیغ کرنے والے یا مختصراﹰ دہشت گردی کے منصوبہ سازوں کو بھی ملک بدر کیا جائے۔‘‘
چیک جمہوریہ کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ان تمام غیر ملکیوں کا خیر مقدم کرنے کے لیے تیار ہیں جو سماجی انضمام پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک پرانے بیان کو دہراتے ہوے کہا کہ مسلمان تارکین وطن مغربی معاشروں اور یورپی ثقافت میں ضم نہیں ہو سکتے۔
زیمان مسلمان تارکین وطن کے بارے میں اس سے پہلے بھی ایسے بیانات دیتے رہے ہیں جس کے بعد انہیں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین سمیت کئی حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’سیاسی طور پر درست بات کرنا جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔‘‘
اس سے قبل زیمان نے ایک اور متنازعہ بیان میں کہا تھا کہ بڑے تعداد میں مسلمان تارکین وطن کی یورپ آمد در اصل ایک ’منظم یلغار‘ ہے۔ انہوں نے شام سے آنے والے مہاجرین پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے ملک واپس جا کر ’دولت اسلامیہ‘ کے خلاف لڑائی میں شامل ہوں۔
میلوش زیمان چیک جمہوریہ کے پہلے ایسے صدر ہیں، جن کا انتخاب بلاواسطہ انتخابات کے ذریعے ہوا تھا۔ وہ 2013ء سے اقتدار میں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تارکین وطن ’یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان بچوں کے ڈوب جانے کا اندیشہ ہے، انہیں ربڑ کی کشتیوں کے ذریعے لے کر آتے ہیں۔‘‘