چھ روز کے اندر انتخابات کا اعلان کیا جائے ورنہ۔۔، عمران خان
26 مئی 2022پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جمعرات کی صبح اسلام آباد کے نائن ایونیو میں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کو انتخابات کے اعلان کے لیے چھ دن کی مہلت دی، اور خبردار کیا ہے کہ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی تو پھر، ’’پوری قوم‘‘ کے ساتھ وہ واپس دارالحکومت آجائیں گے۔
عمران خان جمعرات کی علی الصبح اسلام آباد میں داخل ہوئے تھے اور پھر انہوں نے ڈی چوک کی طرف مارچ کیا، جب کہ وفاقی حکومت نے شہر کی ’’اہم سرکاری عمارتوں کی حفاظ‘‘ کے لیے ریڈ زون کے علاقے کو فوج کے حوالے کر دیا تھا۔
اسلام آباد کے نائن ایونیو میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا، ’’میں نے فیصلہ کیا تھا کہ جب تک حکومت اسمبلیاں تحلیل نہیں کر دیتی اور انتخابات کا اعلان نہیں کرتی، اس وقت تک میں یہیں دھرنے پر بیٹھوں گا۔ لیکن گزشتہ 24 گھنٹوں میں جو کچھ میں نے دیکھا ہے، وہ ظاہر کرتا ہے کہ (حکومت) قوم کو انارکی کی طرف لے جا رہی ہے۔‘‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت عوام اور پولیس کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔ عمران نے کہا کہ حکومت ان کے اسلام آباد میں دھرنا دینے سے بہت خوش ہو گی، کیونکہ اس سے، ’’عوام، پولیس اور فوج کے درمیان تصادم ہو گا۔‘‘
عمران خان نے ’’آزادی مارچ‘‘ روکنے کے لیے چھاپوں اور گرفتاریوں سمیت حکومت کے دیگر ’’ہتھکنڈوں‘‘ کی مذمت کی اور اس معاملے کا نوٹس لینے کے لیے سپریم کورٹ کا بھی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے شہباز شریف کی حکومت کے لیے ’’امپورٹیڈ گورنمنٹ‘‘ یعنی برآمد شدہ حکومت کا لفظ استعمال کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے ججوں پر ایک ’’بڑی ذمہ داری‘‘ عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’’کسی بھی جمہوریت میں پُر امن احتجاج کی اجازت کہاں پر نہیں ہے؟ مظاہرین کو آنسو گیس کی شیلنگ، پولیس کے چھاپوں اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس مارچ کے آغازسے اب تک ان کی جماعت کے پانچ مظاہرین جھڑپوں میں مارے جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آنسو گیس کی شیلنگ کے دوران ایک کارکن اٹک پل سے نیچے گر گیا، جبکہ دوسرے کو دریائے راوی میں دھکیل دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ کراچی میں دیگر تین افراد کو قتل کر دیا گیا ہے۔
سابق وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ،’’آخر ہم کیا جرم کر رہے تھے؟‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،’’ہم سپریم کورٹ کے ججوں اور وکلاء برادری سے پاکستان کے لوگوں کے لیے انصاف کے طالب ہیں۔‘‘ انہوں نے ’’حقیقی آزادی کی جدوجہد‘‘ میں شرکت کرنے پر پی ٹی آئی کی خواتین مظاہرین کی تعریف بھی کی۔
اطلاعات کے مطابق عمران خان کے اس خطاب کے دوران ہی مظاہرین اپنے گھروں کی جانب پر امن طریقے سے روانہ ہونے لگے۔ مقامی میڈیا کے مطابق کراچی نمائش کے میدان میں جمع پی ٹی آئی کارکنان ان کے خطاب کے بعد منتشر ہو گئے تاہم اسلام آباد میں اب بھی بہت سے مظاہرین اور پی ٹی آئی کے کارکن جمع ہیں، جہاں فوجی اور پولیس کی بھاری نفری حکومتی دفاتر اور حساس مقامات کی حفاظت کر رہی ہے۔
حکومت کا رد عمل
وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے عمران خان کے بیان پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ اسمبلیوں کو ’’گن پوائنٹ‘‘ پر تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے ٹویٹر پر لکھا، ’’مخلوط حکومت پر دھارے کی سازش کرنے والا فسادی اور اس کے سہولت کار مسند اقتدار تک پہنچنے کی بجائے محض ایندھن ثابت ہوں گے۔‘‘
مریم نواز نے بھی عمران خان کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستانی عوام کو مبارک باد پیش کرتی ہیں کہ ’’فتنہ خالی ہاتھ واپس لوٹ گیا، عوام نے اسے مسترد کر دیا۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’الٹیمیٹم تو عوام نے عمران خان کو دیا ہے۔‘‘
اسلام آباد کا ریڈ زون فوج کے حوالے
جمعرات کے روز ہی عمران خان کے خطاب سے قبل ملک کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ حکومت نے دارالحکومت اسلام آباد میں فوجی دستوں کی تعیناتی کی اجازت دے دی ہے۔ حکومت نے یہ اقدام سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ہزاروں حامیوں کے ساتھ پارلیمنٹ کی طرف مارچ کے خدشے کے پیش نظر کیے۔
ص ز/ ک م (نیوز ایجنسیاں)