1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں آبی قلت، کیا کوئی حل ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
22 مارچ 2018

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں سیاست دانوں اور ذرائع ابلاغ کی توجہ آنے والے انتخابات اور سیاسی مسائل پر مر کوز ہے، ملک کے آبی ماہرین پانی کی قلت پر پریشان ہیں اور اس کے حل کے طریقے سوچ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2umDM
Weltwassertag 22.03.2018
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

کئی بین الاقوامی اداروں کے مطابق پاکستان تیزی سے ایک ایسی صورتِ حال کی طرف بڑھ رہا ہے، جہاں آنے والے وقتوں میں اسے شدید پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کچھ ماہرین کے خیال میں پاکستان آنے والے سات برسوں میں پانی کی شدید قلت کا شکار ہو سکتا ہے۔ کئی آبی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے توانائی اور آبی امور کے ماہر جہانزیب مراد کے مطابق اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کئے تو مستقبل میں ہم تباہی سے دو چار ہو سکتے ہیں۔

کیا پاکستان شدید آبی قلت کا شکار ہونے جارہا ہے؟

اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پانی کو ذخیرہ کرنے والے ڈیموں کی استعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ صرف ہم نے ایک ڈیم کی گنجائش کو بڑھانے کی کوشش کی ہے لیکن ہم نئے ڈیموں کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔ کالا باغ ڈیم کو ہم نے سیاست کی نظر کر دیا ہے جب کہ بھاشا ڈیم میں کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے اس کے باوجود بھی ہم اس ڈیم کو نہیں بنا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیم نہ بننے سے سب سے زیادہ نقصان سندھ اور جنوبی پنجاب کو ہوگا اور سندھ سے ہی سب سے زیادہ ڈیم کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ہمیں اس مسئلے پر سب سے پہلے ایک بیانیہ تیار کرنے کی ضرور ت ہے تاکہ ہم لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی دے سکیں اور پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبے بھی شروع کر سکیں۔‘‘

Weltwassertag 22.03.2018
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum

عالمی یوم آب: آلودہ پانی پاکستان میں بھی ایک بڑا مسئلہ
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’بلین ٹری جیسے کئی منصوبے ہمیں شروع کرنے پڑیں گے لیکن ان منصوبوں کے نتائج فوری طور پر نہیں آئیں گے۔ فوری طور پر تو ہمیں ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم اس لئے بنایا نہیں جارہا کیونکہ اس میں ممکنہ طور پر بارہ برس لگیں گے جب کہ کوئی بھی حکومت پانچ سال سے آگے سوچنا نہیں چاہتی۔ اس معاملے میں ہمیں قومی مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر سوچنا ہوگا۔‘‘

کیا پاکستان کو سیلابی نقصانات سے بچایا جا سکتا ہے؟
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے آبی امور کے ماہر عرفان چوہدری کے خیال میں پاکستان میں بارش کا پیٹرن بہت مختلف ہے اور اب اس پیٹرن کے ساتھ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا جا رہا، جس کی وجہ سے پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک متاثر ہو رہے ہیں،’’مسئلہ یہ ہے کہ یورپی ممالک کے برعکس ہمارے ہاں مختصر مدت کے لئے زیادہ بارش ہوتی ہے، جو صحیح طرح زیر زمین جذب نہیں ہوتی اور چونکہ ہمارے پانی جمع کرنے کے ذخائر بھی کم ہیں۔ اس لئے ہم اس پانی کا ذخیرہ بھی نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے یہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں بڑے ڈیموں کو تعمیر کرنے کے لئے پہلے ہمیں بہت سے سیاسی مسائل سے لڑنا پڑتا ہے۔ اس لئے ہمیں گوٹھ اور دیہات کی سطح پر چھوٹے اسٹوریج ٹینک بنانے چاہیں، جس سے نہ صرف پانی جمع ہوگا بلکہ زیرِ زمین پانی کی سطح بھی بلند ہوگی، جو بلوچستان سمیت کئی علاقوں میں خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے۔ ہمیں سیلابی نہریں بنانی چاہیں اور اگر مون سون کے دور میں بارش بہت زیادہ ہو اور سیلابی شکل اختیار کر لے تو ان سیلابی نہروں کے ذریعے ایک طرف ہم اپنی فصلوں کو تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں اور دوسری طرف ان نہروں کی بدولت بھی زیرِ زمین پانی کی سطح کو بلند کیا جا سکتا ہے۔‘‘

دس برسوں میں پاکستان قحط کا شکار ہو سکتا ہے، رپورٹ
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انرجی کے ماہر فیصل بلوچ کے مطابق اس رین پیٹرن کو بہتر کرنے کے لئے شجر کاری بہت ضروری ہے،’’پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے کئی ممالک میں بڑے ڈیموں کی تعمیر کے تجربے ہوئے ہیں لیکن اب کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ان بڑے ڈیموں کا نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوتا ہے۔ اسی لئے دنیا کے کئی ممالک میں ان ڈیموں کو بتدریج ختم کیا جا رہا ہے۔ ڈیموں کے لئے ایک خطیر سرمایہ چاہیے ہوتا ہے جب کہ اس سے سیاسی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں مصنوعی جھیلیں بنا کر پانی کو ذخیرہ کرنا چاہیے، جس سے نیچرل اکوافر ریچارج ہوگا۔ اس کے علاوہ فیلڈ اریگیشن کو ختم کر کے ہمیں دوسرے طریقے اپنانے چاہیں۔ پانچ ملین ایکڑ فٹ (MAF)صرف ہم یہ طریقہ کاشت کو ختم کر کے بچا سکتے ہیں۔‘