پاکستان میں ایک بار پھر فوجی بغاوت ہوسکتی ہے: پرویز مشرف
30 ستمبر 2010سابق صدر پرویز مشرف خود بھی سال 1999ء میں بطور آرمی چیف ایک فوجی بغاوت کے بعد برسر اقتدار آئے تھے اور سال 2008ء میں حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد سے لندن میں رہائش پذیر ہیں۔ پرویز مشرف نے اپنے اس خیال کے حق میں اس تناؤ کا حوالہ دیا جو اطلاعات کے مطابق پاکستانی صدر، وزیراعظم اور فوج کے سربراہ کے درمیان موجود ہے۔
سابق صدر سے جب پوچھا گیا کہ ان حالات میں کیا وہ سمجھتے کہ فوجی بغاوت ہوسکتی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ جب وہ خود فوج کے سربراہ تھے تو اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف ان پر بھی اسی طرح کا دباؤ تھا جس طرح کے دباؤ سے آج کل جنرل اشفاق پرویز کیانی گزر رہے ہیں۔
پرویز مشرف کے مطابق: ’’اس ایک سال کے دوران پاکستان ہر حوالے سے روز بروز پیچھے جارہا تھا، اور اُن حالات میں لوگ جن میں سیاستدان، خواتین اور مرد شامل تھے، مجھے بار بار کہتے تھے کہ آپ کچھ کیوں نہیں کر رہے؟ اور کیا آپ پاکستان کی بہتری کے لئے کچھ کریں گے؟‘‘
پرویز مشرف نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ وہ پاکستان میں اگلے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے یکم اکتوبر کو اپنی سیاسی جماعت کا بھی باقاعدہ اعلان کر رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا کہ وہ خود کب تک پاکستان جائیں گے، جہاں ان کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات قائم ہیں۔
ریٹائرڈ جنرل مشرف کے مطابق پاکستانی صدر آصف علی زرداری کے دور میں ملکی انتظامیہ دن بدن گرتی معیشت کو سنبھالا دینے، طالبان کے بڑھتے ہوئے خطرات اور سیلاب کے بعد کی نازک صورتحال پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے۔
پاکستانی فوج سن 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سے اب تک آدھے سے زیادہ وقت ملک پر حکومت کر چکی ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک