پاکستان: اسلامی ممالک افغانستان کی مدد کے لیے متحد
19 دسمبر 2021افغانستان میں ہنگامی صورتحال ہے اور خاص طور پر موسم سرما کے دوران لاکھوں افراد کو بھوک کا سامنا ہے۔ تاہم بین الاقوامی برادری اب تک اس سے نمٹنے کے حوالے سے حتمی لائحہ عمل طے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ افغانستان میں اگست سے اقتدار پر قابض طالبان حکومت کی مدد کے سلسلے میں مغربی ممالک ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
'افغانستان افراتفری کی جانب بڑھ رہا ہے‘
اسلام آباد میں 57 رکنی اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کے ایک غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان افراتفری کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں مہاجرین کا بحران شدید اور ملک میں تشدد میں اضافہ ہو گا، ''یہ کسی کے لیے مناسب نہیں ہے۔‘‘
دو روزہ اجلاس میں اقوام متحدہ، بین الاقوامی مالیاتی تنظیموں، امریکا، روس، چین، یورپی یونین اور جرمنی سمیت جاپان کے مندوبین نے بھی شرکت کی۔
افغاستان میں انسانی بحران
کابل میں طالبان حکومت کے موجودہ وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی نئی حکومت امن اور سکیورٹی بحال کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر مطالبات پورے کر رہی ہے، جس میں تمام دھڑوں کے نمائندوں پر مشتمل حکومت، انسانی حقوق کی پاسداری اور خواتین کے حقوق شامل ہیں۔ ان کے تحریری بیان کے بقول، ''افغانستان کو سیاسی طور پر علیحدہ کرنا کسی کے حق میں نہیں، لہٰذا سیاسی اور اقتصادی استحکام کی بحالی کے لیے مکمل تعاون لازمی ہو گا۔‘‘
افغان طالبان پہلے بھی بدحال معیشت کی بحالی اور بیس ملین افراد کو بھوک اور خوارک کی قلت سے بچانے کے لیے مدد مانگ چکے ہیں۔ چند ممالک اور امدادی تنظیموں نے امدادی سامان ارسال کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ افغانستان کو فوری امداد کے ساتھ ساتھ معیشت کے طویل مدتی استحکام کے لیے مدد کی اشد ضرورت ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ امریکا نے افغان سینٹرل بینک کے تقریبا ساڑھے نو بلین ڈالر کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔ واشنگٹن حکومت، جب تک یہ اور ایسی کئی پابندیاں ختم کرنے کا فیصلہ نہیں کرتی، تب تک دیگر ممالک بھی طالبان سے براہ راست معاملات طے کرنے سے اجتناب کرتے رہیں گے۔ اس بارے میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت کو چالیس ملین افغان شہریوں کے ساتھ نہیں جوڑا جانا چاہیے۔
طالبان کے وعدے
علاوہ ازیں افغان وزیر خارجہ نے اس بات کا یقین دلایا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو دیگر ممالک پر حملے کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے اور سابقہ حکومت کے اہلکاروں کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائی بھی نہیں کی جائے گی۔
طالبان حکام کی طرف سے مسلسل ایسے بیانات دیے جاتے ہیں۔ تاہم ان پر خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار کے حصول کی حق تلفی، حکومت میں معاشرے کے ایک بڑے حصے کی نمائندگی شامل نہ کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ سابق حکومتی اہلکاروں کو عام معافی دینے کے وعدوں کے باوجود ان کو نشانہ بنانے کے حوالے سے تنقید کی جاتی ہے۔
ع آ / ا ا (روئٹرز، اے پی)