پاکستان میں فوجی عدالتیں: سپریم کورٹ کیا فیصلہ دے گی؟
28 جون 2016یہ خفیہ فوجی عدالتیں دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے اُس سانحے کے بعد قائم کی گئی تھیں، جس میں دہشت گردوں نے 134 نوعمر طالب علموں کو بے رحمی کے ساتھ ہلاک کر دیا تھا۔
قومی اسمبلی نے گزشتہ برس جنوری میں ان عدالتوں کو دہشت گردی میں ملوث سویلینز کے خلاف مقدمے سننے کی اجازت دے کر عدلیہ کے شعبے کے اہم اختیارات اُس فوج کو سونپ دیے تھے، جو قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک کے نصف عرصے میں ملک پر حکمرانی کر تی رہی ہے۔
تب جواز یہ بتایا گیا کہ عدالتی نظام دہشت گردوں کو سزائیں دینے کی اہلیت نہیں رکھتا اور یہ کہ کئی جج دہشت گردی کے مقدمات سننے سے خائف ہیں۔
یہ فوجی عدالتیں اب تک اکیاسی افراد کو سزائیں سنا چکی ہیں۔ ستتر افراد کو موت کی سزائیں سنائی گئیں۔ فوج کے پریس کے شعبے کے مطابق ان مقدمات کے دوران تمام تر قانونی تقاضے نبھائے گئے تاہم اب تک کسی ایک بھی ملزم کو بری نہیں کیا گیا۔ ان عدالتوں سے سزا یافتہ کم از کم ستائیس افراد نے سویلین عدالتوں میں اپیلیں کر رکھی ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ان سے زبردستی اعترافِ جرم کروایا گیا، انہیں اپنے دفاع کے لیے وکیل کی خدمات تک نہیں لینے دی گئیں اور نہ ہی کوئی ثبوت پیش کرنے دیے گئے۔ ماہرینِ قانون کا بین الاقوامی کمیشن ICJ ان عدالتوں کو ہدفِ تنقید بنا چکا ہے۔
ملکی سپریم کورٹ میں پیش کردہ بارہ میں سے نو کیسوں میں دلائل مکمل ہو چکے ہیں۔ عدالت باقی ماندہ کیس بھی سن رہی ہے۔ آئندہ ہفتوں کے دوران تمام بارہ کیسز کا ایک ساتھ فیصلہ سنائے جانے کی توقع ہے۔
روئٹرز کے مطابق دس سزا یافتہ افراد کے وکلاء اور رشتے داروں نے فوجی عدالتوں کے رویے کی شکایت کی۔ اِن دَس میں سے تین کے کیس سپریم کورٹ میں ہیں، ایک کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں جبکہ چھ کا مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں ہے۔
انہی میں صابر شاہ نامی وہ شخص بھی ہے، جو اپریل 2015ء میں لاہور کی سینٹرل جیل سے لاپتہ ہو گیا تھا۔ تب اس پر ایک سویلین عدالت میں قتل کے الزام میں مقدمہ چل رہا تھا۔ پانچ ماہ بعد اس کے گھر والوں کو ایک پریس ریلیز سے پتہ چلا کہ اُسے فوجی عدالت نے اس بناء پر سزائے موت سنا دی ہے کہ اس نے لاہور کے ایک وکیل سید ارشد علی کے قتل کا اعتراف کر لیا تھا۔ وکلاء اور اہلِ خانہ کو اب تک پتہ نہیں چلا کہ صابر شاہ کے خلاف کیا شواہد پیش کیے گئے۔