پاکستان میں گندم کی قیمت بہت زیادہ ہے، ورلڈ فوڈ پروگرام
24 مارچ 2011یہ بات پاکستان میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر Wolfgang Herbinger نے جنیوا میں ایک کانفرنس کے موقع پر بتائی۔ ان کے بقول اس حقیقت کے باوجود کے سیلاب سے متاثرہ میدانی علاقے تیزی سے بحالی کی جانب گامزن ہیں اور اچھی فصل ہونے کی توقعات ہیں لیکن پھر بھی عام شہری کو خوراک کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
ان کے مطابق، ’ فصل کا اندازہ بہت بُرا نہیں ہے، مگر خوراک کی دستیابی مشکل ہے کیونکہ قیمتیں بہت بلند ہیں، پاکستانی حکومت ملکی گندم کی سب سے بڑی خریدار ہے، وہی کھیت سے فصل خریدنے کی قیمت طے کرتی ہے اور منڈی میں اسی کی اجارہ داری ہے۔‘
وولفگانگ کے مطابق 2009ء اور 2010ء میں گندم کی قیمتوں پر نظرثانی نہیں کی گئی اور صارفین کو مہنگائی کا سامنا رہا۔ ان کے بقول آج کل صارفین کو اس بنیادی ضرورت کے لیے تین سال قبل کے مقابلے میں دوگنی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
ادارے کے مطابق پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ کے باسیوں میں خوراک کی کمی کی سطح 23 فیصد تک پہنچ چکی ہے، ’ یہ افریقہ کی سطح سے بھی بلند ہے، ہنگامی پیمانے کی سطح 15 فیصد ہے۔‘
ایک تازہ جائزے کے مطابق بعض سیلاب زدہ علاقوں میں 70 فیصد تک شہری قرض لے کر اپنا اور کنبے کا پیٹ پالنے پر مجبور ہیں۔ وولف گانگ نے واضح کیا کہ پاکستانی حکام کو قائل کرنے پر عالمی ادارہ برائے خوراک کو مشکل پیش آرہی ہے، ’ ہوسکتا ہے کہ ملک میں اناج کی بہتات ہو مگر لوگوں میں اسے خریدنے کی سکت نہیں، ہم وزارت خوراک کے ساتھ مل کر وزیر کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر لوگ اسے خرید ہی نہیں سکتے تو اس کی وافر مقدار میں پیداوار کا کوئی فائد ہ نہیں ہے۔‘
انہوں نے پاکستانی حکومت کی زراعت سے متعلق پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’کسان کو خوش کرنا اچھی بات ہے مگر اگر صارفین کو مشکلات کا سامنا ہے تو پھر پالیسی میں ضرور کوئی خرابی ہے۔‘
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ