پاکستان کو صحرا بننے سے بچایا جاسکتا ہے، آبی ماہرین
29 اپریل 2018ان ماہرین نے تاہم خبردار کیا ہے کہ آبی مشکلات سے نمٹے بغیرپائیدار معاشی و سماجی ترقی خاص کر غربت میں کمی، روزگار میں اضافہ، صحت، تعلیم اور ماحولیاتی ترقی کے اہداف کا حصول ممکن نہیں ۔
پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تقریباً تین دہائیوں سے التوا کی شکار پہلی قومی آبی پالیسی کے مسودے کی منظوری وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 24 اپریل کو منعقدہ مشترکہ مفاداتی کونسل کے 37ویں اجلاس کے دوران دی۔ آبی پالیسی کا خاص مقصد پانی کی زراعت اور صنعت سمیت مختلف شعبوں کے لیے دستیابی، اس کے بہتر اور پائیدار استعمال کو یقینی بنانا اور اس کی اسٹوریج میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہے۔
قومی آبی پالیسی وفاقی کے علاوہ تمام صوبائی، گلگت بلتستان، فاٹا اور آزاد جموں و کشمیر کے متعلقہ سرکاری اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے اہم نمائندوں، پالیسی سازوں، تعلیم ماہرین اور محققوں کی تجاویز کی روشنی میں ترتیب دی گئی ہے۔ اس پالیسی کو عمل میں لانے کے لیے قومی آبی کونسل کے نام سے قومی سطح کے ادارہ کے ذریعے کام شروع جلد شروع کیا جارہا ہے۔
اس پالیسی مسودے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی آبی و خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جلد 6.4 ملین ایکڑ فُٹ اسٹوریج والے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کر کے ملکی سطح پرموجودہ 14ملین ایکڑ فُٹ آبی ذخیرہ کی صلاحیت میں مزید اضافہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ آبی استعمال اور ترجیحات کے تعین، آبی وسائل کی ترقی اور پائیدار استعمال کے لیے مربوط منصوبہ بندی، طاس کی ماحولیاتی ہم آہنگی، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات، پانی کے حصے، آبپاشی اور بارش کے پانی پر منحصر زراعت، پینے کے صاف پانی اور سینیٹیشن، پن بجلی، صنعت، پانی کے تحفظ کے انتظامات، قانونی فریم ورک اور آبی شعبہ کے اداروں کی استعداد کار بڑھانے سمیت قومی آبی پالیسی کو عمل میں لانے کے لیے مختلف اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ، نئی آبی پالیسی میں ہر سال تقریباً 46 ملین ایکڑ فُٹ ضائع ہونے والے پانی میں سال 2030 تک 33 فیصد کمی لانے کے حوالے سے مختلف تجاویز دی گئی ہیں۔ماہرین نے اس پالیسی مسودے میں پانی کے زیاں میں کمی کے لیے نہروں کے ذریعے زرعی زمینوں تک پانی کے ترسیلی نظام کو مزید بہتر کرنے، جدید ڈرپ اور اسپرنکلر اریگیشن نظام کو کسانوں میں متعارف کرانے اور مختلف جدید آبپاشی ٹیکنالوجی کے استعمال کو ہر سطح پر ممکن بنانے پر بھی زور دیا ہے۔
عالمی بینک اور وفاقی ادارہ برائے منصوبہ بندی و ترقی کی رپورٹوں کے مطابق، پاکستان میں 30 دن کے استعمال کے لیے پانی کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت موجود ہے ، جو کم سے کم 120دن تک کی ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس انڈیا 200 دن اور مصر میں 1000دن تک کے استعمال کے لیے پانی اسٹور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کو دریاؤں اور بارشوں کی صورت میں سالانہ تقریباً 115ملین ایکڑ فٹ پانی مہیا ہوتا ہے۔ اس پانی کا 93 فیصد زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پانچ فیصد گھریلو اور دو فیصد صنعتی شعبے میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم اریگیشن نیٹ ورک زبوں حالی کا شکار ہونے کے باعث زرعی شعبے کو ملنے والے پانی کا 70فیصد حصہ ترسیل کے دوران ضائع ہوجاتا ہے۔
وفاقی ادارہ برائے ترقی و منصوبہ بندی پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سرتاج عزیز نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس آبی پالیسی کے تحت اب تمام صوبے اور تین انتظامی علاقے پائیدار ترقی اور بہتر آبی انتظام کاری کے قومی فریم ورک کی روشنی میں ایسے ماسٹر پلان ترتیب دے سکیں گے، جن کی مدد سے صوبائی و انتظامی سطح پر پانی کی اسٹوریج کے حوالے سے نئے منصوبے ترتیب دینے کے علاوہ پانی کے بہتر پیداواری استعمال کو فروغ دیا جاسکے گا۔ ایسے ماسٹر پلان کو عمل میں لانے کے لیے وفاقی حکومت مکمل طور پر مالی و تکنیکی مدد فراہم کرے گی۔‘‘
سرتاج عزیز نے مزید کہا کہ اس آبی پالیسی میں پاکستان کے موجودہ اور مستقبل میں درپیش ہونے والی آبی مشکلات، خاص کر وہ مشکلات جو ماحولیاتی آلودگی، عالمی حدت کے باعث رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی اور اس کے پاکستان میں واقع گلیشیئرز کے پگھلنے کے عمل اور رفتار پر منفی اثرات، سمندری سطح میں مسلسل اضافے کے باعث زیر زمین پانی کا تیزی سے نمکین یا آلودہ ہونے کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہیں، کی نشاندہی کرکے ان کو حل کرنے کے لیے مختلف مالی و تیکنیکی قابلیت و صلاحیت کو مزید بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ ان تجاویز پر یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال سے عمل شروع کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ان تجاویز کو عملی شکل دینے کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ کا سالانہ 10فیصد خرچ کیا جائے گا، جس میں سال 2030 تک اضافہ کرکے 20 فیصد تک بڑھایا جائے گا۔ صوبوں نے بھی اپنی صوبائی ترقیاتی بجٹ کاسالانہ 10فیصد پانی کے شعبے پر خرچ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ماہر آبی سفارت کاری اور تحقیق دان ذوالفقار ہالیپوٹو کا کہنا ہے کہ ملکی تاریخ میں اب تک پاکستان کے انڈیا اور افغانستان کے ساتھ ٹرانس باؤنڈری آبی وسائل سے منسلک معاملات پر ان ممالک کی حکومتوں کے نمائندوں سے پاکستان کی جانب سے فارن آفس کے سفارت کار اور سکیورٹی اداروں کے نمائندے بات چیت کرتے رہے ہیں۔ مگر اس نئی آبی پالیسی سے واضح ہوا ہے کہ آبی معاملات اور تنازعات پر پڑوسی ممالک سے بات چیت کرنا اب صرف اور صرف وفاقی اور صوبائی سول حکومتوں کا ہی ایجنڈا رہے گا۔ اور یہ موجودہ حکومت کی جانب سے انتہائی احسن اقدام ہے۔
غیر سرکاری تنظیم گلوبل واٹر پارٹنر شپ پروگرام کے پاکستان میں نمائندے ڈاکٹر پرویز امیر نے ڈوئچے ویلے کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ سال 1948ء میں سالانہ فی کس پچاس لاکھ لیٹر پانی موجود ہوتا تھا۔ جو اب کم ہوکر دس لاکھ لیٹر فی کس رہ گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان میں سال 2025ء تک سالانہ فی کس پانی کی موجودگی خطرناک حد تک کم ہوکر آٹھ لاکھ لٹر تک ہوجا ئے گی۔ تب ملک میں 80 فیصد لوگوں کو گھروں میں ٹونٹیوں کے ذریعے پانی مہیا نہیں ہوسکے گا اور زراعت کو بڑی حد تک نقصان پہنچے گا۔انہوں نے تجویز دی کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے چھوٹے اور درمیانے سطح کے ڈیم بنا کر زیادہ سے زیادہ پانی اسٹوریج میں اضافہ کرنا ہوگا۔
اُدھر اسلام آباد میں واقع پانی پر تحقیق کرنے والے وفاقی ادارے ’پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشرف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صاف پانی دستیابی اور سینیٹیشن کی صورتحال بہت زیادہ بگاڑ کا شکار ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اب بھی21 کروڑ کی آبادی میں سے آٹھ کروڑ لوگ سرے سے ہی صاف پانی کی سہولیات سے محروم ہیں اور تقریباﹰ 90 فیصد علاقوں کا زیر زمین پانی پینے کے لائق نہیں اور یہ پانی انتہائی آلودہ اور مضر صحت ہوچکا ہے۔
ڈاکٹر محمد اشرف کی رائے میں پاکستان کا مسئلہ پانی کی قلت نہیں۔ پانی کا غیر پائیدار استعمال اور اس کا ضائع ہونا زیادہ سنجیدہ مسئلہ ہے۔ پاکستان میں اب بھی پانی سیلابوں کی صورت میں وافر مقدار میں آتا ہے جو ضرورتِ اسعتمال سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔۔۔ مگر وہ ملک میں پانی کی اسٹوریج کی صلاحیت انہائی کم ہونے کے باعث ضائع ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد اشرف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سال 2010ء سے لے کر اب تک ملک میں سیلابوں کی صورت میں وافر مقدار میں پانی آتا رہا ہے ۔۔۔ مگر درکار اسٹوریج انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے وہ ضائع ہوتا رہا۔‘‘
ڈاکٹر محمد اشرف نے مزید کہا کہ پانی کے بہتر اور پائیدار استمعال کو فروغ دینے، زراعتی، گھریلو اور صنعتی سطح پرپانی کے غیر پائیدار استعمال کو روکنے، بارش کے پانی کو جمع کرنے کے چھوٹے بڑے تالابوں کی تیاری، جدید آبپاشی ٹیکنالوجی تک کسانوں کی آسان رسائی، صنعتی اور گھریلو ویسٹ واٹر کی ری سائیکلنگ کے حوالے سے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کو ریگستان ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر پاکستان کو پانی کی شدید کمی کا شکار ہونے سے بچانا مشکل ہے۔