پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں تاریخ رقم کرنے والی خواتین
8 مارچ 2024محترمہ بینظیر بھٹو کے 1988ء میں بطور وزیر اعظم انتخاب نے نہ صرف پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا بلکہ انہیں مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بننےکا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اس واقعے کے تقریباﹰ پینتیس سال بعد حال ہی میں مریم نواز شریف کا بطور پہلی خاتون وزیر اعلیٰ انتخاب بھی پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔
ملکی پارلیمانی سیاست میں خواتین کی شرکت اور کردار مسلسل بڑھتا آیا ہے اور ترقی کا یہ سفر جاری ہے۔ یہ سفر کیسے شروع ہوا، کون سے سنگ میل طے ہوئے اور آج کیا صورتحال ہے۔ آئیے اس بارے میں ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
دستورسازاسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی
پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے کل 69 ممبران میں دو خواتین بیگم شائستہ سہروردی اور بیگم جہاں آراء شاہنواز شامل تھیں۔ بیگم شائستہ یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی مسلم خاتون کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔ ایوب دور میں تین برس تک وہ مراکش میں پاکستان کی سفیر بھی تعینات رہیں۔
بیگم جہاں آراء شاہنواز خواتین کے حقوق کی سرگرم رکن تھیں۔ انہوں نے 1948ء میں اسمبلی سے خواتین کے 'حق وراثت‘ کا بل منظور کروایا، جس کے نتیجے میں خواتین کو زرعی زمین سمیت تمام پراپرٹی میں سے اپنا حصہ لینے کا قانونی حق حاصل ہوا۔
پاکستان کی دوسری دستور ساز اسمبلی کے 72 اراکین میں کوئی خاتون شامل نہ تھی۔ پاکستان کی تیسری اسمبلی میں کل آٹھ خواتین تھیں جن میں سے دو جنرل نشستوں پر بی ڈی ممبران کے ذریعے منتخب ہوئی تھیں۔
مصنفہ سارہ بانو اپنے تحقیقی مقالے'وومن اِن پارلیمنٹ اِن پاکستان: پرابلمز اینڈ پولیٹیکل سولیوشنز‘ میں لکھتی ہیں کہ 1947ءکے بعد قائد اعظم کے ابتدائی اقدامات میں سے ایک 'سنٹرل وومنز کمیٹی‘ کا قیام تھا۔ ”کمیٹی کی سربراہ فاطمہ جناح تھیں جن کا مقصد مسلم لیگ میں خواتین کے لیے کوٹہ مقرر کرنا تھا۔ یہی سفارشات آگے چل کر قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی بنیاد بنیں۔ 1956ء اور 1962ءکے آئین میں خواتین کے لیے چھ نشستیں مخصوص کی گئیں جو 1973ء میں دس اور 1985ء میں بیس کر دی گئیں۔"
فاطمہ جناح: آمریت کے خلاف قوم کی آواز
پاکستان میں پہلے صدراتی انتخابات دو جنوری 1965ءکو منعقد ہوئے، جس میں فوجی آمر ایوب خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی نمائندگی کا اعزاز محترمہ فاطمہ جناح کے حصے میں آیا۔ مادر ملت کا خطاب پانے والی فاطمہ جناح ملک کے سب سے بڑے عہدے کے لیے میدان میں اترنے والی پہلی خاتون تھیں۔ اگرچہ وہ کامیاب نہ ہو سکیں لیکن پاکستان کی جمہوری اور پارلیمانی سیاست پر انمٹ نقش چھوڑ گئیں۔
الطاف گوہر اپنی کتاب 'فوجی راج کے پہلے دس سال‘ میں لکھتے ہیں، ”اب ایوب خان کی برداشت جواب دینے لگی تھی۔ انہوں نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مس جناح کے غیر شادی شدہ ہونے کے حوالے سے ان پر 'خلاف فطرت‘ زندگی بسر کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ 'بدخصال لوگوں میں گھری ہوئی ہیں۔"
اسی طرح 'فیمین ازم اینڈ دا ووِمنز موومنٹ ان پاکستان' کی لکھاری ڈاکٹر روبینہ سہگل کے مطابق جنرل ایوب خان نے فاطمہ جناح کو ”نسوانیت اور ممتا سے عاری" خاتون قرار دیا تھا۔ وہ آگے چل کر لکھتی ہیں، ”مادر ملت نے جواب میں کبھی غیر شائستہ زبان کا استعمال نہ کیا۔"
خواتین کا براہ راست انتخاب
پاکستان میں پہلے عام انتخابات 1970ء میں ہوئے۔ مصنفہ دشکا حیدر سید اپنی کتاب 'وومن اِن پالیٹکس‘ میں لکھتی ہیں، ”ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں (عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی) نے ایک بھی خاتون کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ نہیں دیا۔ تاہم نو خواتین نے بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑا، جن میں سے کوئی نہ جیت سکا۔"
وہ 1970ء سے 1997ء کے درمیان ہوئے انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتی ہیں، ”اس دوران کل 107 خواتین نے انتخابات میں حصہ لیا، جن میں محض 24 کامیابی سے ہم کنار ہو سکیں۔"
پہلی بار براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اسمبلی پہنچنے کا اعزاز بیگم نسیم ولی خان کو حاصل ہے۔ 'پاکستان کی انتخابی سیاست‘ کے مصنف عقیل عباس جعفری لکھتے ہیں، ”ان انتخابات (1977) میں بیگم نسیم ولی خان وہ واحد خاتون تھیں، جنہوں نے نہ صرف دو نشستوں سے الیکشن لڑا بلکہ دونوں نشستوں پر کامیاب بھی ہوئیں۔"
تاہم بیگم نسیم ولی خان اپوزیشن کے بائیکاٹ کے سبب بطور رکن اسمبلی حلف نہ اٹھا سکیں۔
اسی اور نوے کی دہائی میں جتنے بھی الیکشن ہوئے، ان میں ہمیشہ براہ راست منتخب ہو کر آنے والی خواتین کی تعداد دو یا چار رہی۔ اس دوران تواتر سے منتخب ہونے والی خواتین میں بیگم نصرت بھٹو اور ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو شامل رہیں۔
مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب محترمہ بے نظیر بھٹو کی جد و جہد اور مسلم دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم بننا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے بعد پاکستان کے بعض حلقوں میں بابائے سوشلزم کہلائے جانے والے شیخ رشید کے علاوہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے تمام اراکین پارٹی سے کنارہ کش ہو گئے۔ ایسے میں بیگم نصرت بھٹو اور نوجوان بینظیر بھٹو نے پارٹی قیادت سنبھالی اور تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی۔
تقریباً دس برس کی جمہوری جد و جہد کے بعد دو دسمبر 1988ءکو انہوں نے بطور وزیر اعظم حلف اٹھایا۔
’’بے نظیر بھٹو اینڈ فیوچر آف وومن اِن پاکستان‘‘ کی مصنفہ انیتا ایم وائز لکھتی ہیں، ”اگرچہ ان کی کابینہ میں محض ایک خاتون وزیر اور چار وزرائے مملکت ہیں، اس کے باوجود ان کا دور خواتین کی اہمیت کے حوالے سے ان کی ذات تک محدود نہیں۔ اس کی علامتی اہمیت یہ ہے کہ خواتین کو روایتی ذمہ داریوں سے ہٹ کر معمول کی زندگی میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ یہ غیر معمولی ہے کہ خواتین کو شراکت اور احترام دیا جا رہا ہے۔"
سابق وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے اپنی کتاب ’’خوابوں اور حقائق کے مابین‘‘ میں اس حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کو مغرب میں بہت سراہا گیا اور اس مثبت تاثر کی وجہ سے ”ایک سال میں پاکستان کی غیر ملکی امداد 2.6 سے 3.4 ارب ڈالرز تک چلی گئی۔"
پاکستان کے لیے وہ لمحہ بہت قابل فخر تھا جب نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنے افتتاحی خطاب میں پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بطور سیاسی قائدین ہمارے بارے میں مختلف آرا اور نقطہ نظر لکھے جائیں گے مگر ”بے نظیر بھٹو کے بارے میں دو چیزیں تاریخ رد نہیں کر سکتی۔ وہ مسلم ملک کی پہلی مسلمان منتخب خاتون وزیراعظم تھیں، جب شاذ و نادر ہی خواتین اقتدار میں آتی تھیں۔"
آرڈن نے بے نظیر بھٹو کے حوالے سے مزید کہا، ”وہ (وزیر اعظم ) کے عہدے پر رہتے ہوئے بچے کو جنم دینے والی بھی پہلی خاتون تھیں۔"
خواتین کا قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر سے سپیکر تک سفر
1973ء کی قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ ایک خاتون قومی اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئیں۔ مسز اشرف خاتون عباسی کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔
2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک اور اعزاز حاصل کیا، جب پہلی مرتبہ ایک خاتون ڈاکٹر فہمیدہ مرزا قومی اسمبلی کی سپیکر منتخب ہوئیں۔ اتنے بڑے آئینی عہدے پر کسی خاتون کا منصب سنبھالنا یقیناً ایک تاریخی لمحہ تھا۔
سینیٹ میں پہلی خاتون اپوزیشن لیڈر
پاکستانی خواتین کے لیے ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کی طرح ایوان بالا یعنی سینیٹ کا سفر بھی آسان نہیں رہا۔ پہلی بار سینیٹ کی خاتون ممبر منتخب ہونے کا اعزاز سمیعہ عثمان فتح کے نام ہے، جو 1973ء میں ایوان بالا کی رکن بنیں۔
1985ء سے 1988ء تک ایک موقع ایسا بھی تھا، جب تین برس تک سینیٹ میں کوئی خاتون رکن نہ تھی۔
اس وقفے کے بعد ڈاکٹر نور جہاں پانیزئی1991ء میں سینیٹ کی رکن بننے کے بعد ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا آئینی عہدہ سنبھالنے والی پہلی خاتون بنیں ۔
2002 ء سے قبل کبھی ایسا نہ ہوا کہ سینیٹ میں بیک وقت دو سے زائد خواتین ارکان موجود ہوں۔ مارچ 2018ء میں شیری رحمان کو سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اب تک کسی خاتون سینٹر کا اس عہدے پر رہنا ایک واحد مثال ہے۔
مشرف دور اور خواتین کی پارلیمانی سیاست میں حوصلہ افزا نمائندگی
مشرف دور خواتین کی پارلیمانی سیاست میں شرکت کے حوالے سے بہت خاص رہا۔ 2001 ءکی قانون سازی کے دوران خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کا کوٹہ 33 فیصد کر دیا گیا۔ 2002 ء کے اسمبلی انتخابات میں خواتین کے لیے ساٹھ نشستیں مختص کی گئیں، جو گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھیں۔اسمبلی میں خواتین کی کل تعداد 74 تک پہنچ گئی۔
مصنفہ سارہ بانو اس کے اثرات آنے والے انتخابات پر بھی دیکھتی ہیں۔ اس صورت حال نے خواتین کو پارلیمانی سیاست میں فعال ہونے کا حوصلہ دیا۔ ”1988 کے الیکشن میں محض ستائیس خواتین میدان میں اتری تھیں، بیس سال بعد یہ تعداد ساٹھ سے تجاوز کر چکی تھی۔"
2008ء میں قومی اسمبلی کے اندر خواتین کی تعداد 76، 2013ء میں 70 اور 2018ء میں 69 رہی۔
2024 کے انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں براہ راست حصہ لینے والی خواتین کی تعداد ساڑھے آٹھ سو سے بھی زیادہ رہی جو اس بات کا اشارہ ہے کہ خواتین کی انتخابی اور پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کی شرح میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔