پاکستان: کیا سیاسی مطلع آج صاف ہو جائے گا؟
16 فروری 2024پاور شیئرنگ فارمولا کے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل) ن کی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کا طے شدہ دوسرا دور کل جمعرات کو نہیں ہو سکا تھا اور فریقین کے درمیان آج جمعے کو یہ اہم میٹنگ ہوگی۔ امید کی جارہی ہے کہ آج کی میٹنگ میں 'اقتدار میں حصہ داری کا فارمولہ' سامنے آسکے گا۔
پی پی پی نے اس شرط کے ساتھ مسلم لیگ ن کو حکومت سازی کے ساتھ ہی اگلے وزیر اعظم کے انتخاب میں حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس کے بدلے اہم آئینی عہدوں کے حصول میں اس کی حمایت کرے گی۔
تاہم پارٹی کے مختلف اہم رہنماؤں کے درمیان عہدوں کی رسہ کشی کے پیش نظر ان اہم آئینی عہدوں کے لیے نامزدگی پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کے لیے مشکل مرحلہ ثابت ہورہا ہے۔
عمران خان کی طرف سے عمر ایوب وزارت عظمیٰ کے امیدوار نامزد
دریں اثناء پیپلز پارٹی کی مذاکراتی کمیٹیوں کے اراکین نے جمعرات کے روز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو دیگر جماعتوں کے ساتھ اب تک ہونے والی بات چیت میں پیش رفت سے آگاہ کیا۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے درمیان بات چیت کے پس منظر میں مسلم لیگ ن کے ایک دھڑے نے شریف خاندان کو عمران خان کی پارٹی سے مفاہمت کا مشورہ دیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے ایک قومی حکومت کی تشکیل کے لیے پی ٹی آئی کے ساتھ مفاہمت کا مشورہ دیتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جمعرات کے روز ایک پوسٹ میں کہا، ''قومی اسمبلی میں موجود تمام پارٹیوں کو کچھ وقت کے لیے ایک قومی حکومت تشکیل دینی چاہیے۔ اس تجویز پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ایک دوسرے سے منافرت اپنے عروج پر ہے لیکن ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے اپنی انا اور انتقام کی آگ کو بجھادینے کی ضرورت ہے۔‘‘
پی ٹی آئی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کی مشترکہ پریس کانفرنس
دو کٹّر سیاسی حریف پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ آٹھ فروری کے انتخابات شفاف نہیں تھے لہٰذا وہ اسے مسترد کرتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی تناظر میں اسے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔
وزارت عظمی کے لیے نواز شریف کی عدم نامزدگی: عوامل کیا ہیں؟
قبل ازیں پی ٹی آئی کا ایک وفد جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے لیے اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچا۔ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ دونوں جماعتیں متفق ہیں کہ الیکشن صاف، شفاف اور غیر جانبدارنہ نہیں تھے لہٰذا دونوں جماعتیں حالیہ عام انتخابات کو مسترد کرتی ہیں۔
جے یو آئی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ انتخابات کے شفاف نہ ہونے پر تو اتفاق ہے لیکن اس حوالے سے آگے کیسے بڑھنا ہے اس کا فیصلہ بعد میں ہو گا۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے کہا کہ دونوں جماعتوں کا اتفاق ہے کہ یہ الیکشن دھاندلی زدہ تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی جماعت 17 فروری کو دھاندلی کے خلاف ملک گیر احتجاج کرے گی۔
پاکستان مسلم لیگ ن نے شہباز شریف کو وزیر اعظم نامزد کر دیا
پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے مزید کہا، ''ہم مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے کریں گے اور اس وقت تک یہ تحریک چلائیں گے جب تک عوام کو ان کا غصب شدہ حق واپس نہیں کیا جاتا۔‘‘
دریں اثناء پاکستان میں عام انتخابات 2024ء کے دوران مبینہ دھاندلی کے خلاف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) جماعتوں کے حامی سندھ میں دھرنا دے رہے ہیں جبکہ جماعت اسلامی اسلام آباد میں احتجاج کر رہی ہے۔
'بین الاقوامی مبصرین کی نگاہیں اب بھی پاکستان پر ہیں'
امریکہ نے عام انتخابات میں ووٹروں کو دھمکانے اور دبانے کی خبروں پر ایک بار پھر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی مبصرین اب بھی ووٹوں کی گنتی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان جان کربی نے جمعرات کو معمول کی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''ہم اس (صورت حال کو) بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ بین الاقوامی مبصرین اب بھی ووٹوں کی گنتی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
پاکستان انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی تفتیش کرے، امریکہ
وائٹ ہاؤس کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ روز پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ ''پاکستان میں جو الیکشن ہوا اور اس میں جو دھاندلیاں ہوئیں ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کو جس طرح مختلف حربوں کے ذریعے الیکشن کے عمل سے آؤٹ کرنے کی کوشش کی گئی، اس کی مذمت اور اس کے حوالے سے آواز اٹھانا امریکہ کا فرض بنتا ہے، جو امریکہ نے پورا نہیں کیا۔‘‘
امریکی محکمہ خارجہ نے بھی پاکستان کے عام انتخابات کے دوران دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا ایک سے زائد بار مطالبہ کیا ہے۔ اس سے قبل برطانیہ اور یورپی یونین نے بھی پاکستان میں عام انتخابات کے دوران 'لیول پلیئنگ فیلڈ، شمولیت اور شفافیت کے فقدان‘ پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
اسلام آباد نے تاہم ان الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ دوست ممالک ہیں لیکن وہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے۔
ج ا/ ک م (روئٹرز، نیوز ایجنسیاں)