پاکستانی الیکشن: مبینہ بےضابطگیوں کی تفتیش کا امریکی مطالبہ
27 جون 2024جنوبی ایشیائی ملک پاکستان میں رواں برس آٹھ فروری کو عام انتخابات کا انعقاد ہوا تھا۔ اس الیکشن کو ملک کے اندر اور بیرون ملک بھی متنازعہ انتخابات کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ اس الیکشن میں کسی ایک جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ یہ انتخابی عمل تشدد کے واقعات، کمیونیکیشن بلیک آؤٹ اور جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی کی طرف سے دھاندلی کے الزامات سے عبارت تھے تاہم پاکستانی الیکشن کمیشن نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
وزیر دفاع کا 'الیکشن پروسیس‘ کا دفاع
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے امریکی ایوان نمائندگان کی طرف سے ان انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے مطالبے پر مبنی قرارداد پیش کیے جانے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''انہیں ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے یا اس معاملے میں کسی بھی طرح کا فیصلہ دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ خواجہ آصف نے ایک پاکستانی نجی ٹی وی چینل کو اس بارے میں ایک بیان دیتے ہوئے مزید کہا،''امریکی ایوان نمائندگان میں منگل کو منظور ہونے والی قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اسے امریکہ میں اسی سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے تناظر میں سیاسی مقاصد کے لیے دیا جانے والا ایک بیان سمجھا جانا چاہیے۔
ایوان نمائندگان کی اس قرارداد میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کے گزشتہ قومی الیکشن کی آزادانہ تحقیقات کے مطالبے کو پاکستان کے الیکٹورل پروسیس کو بدنام کرنے کی کوشش کے طور پر بھی مذمت کی گئی ہے۔
اسی دوران پاکستانی دفتر خارجہ نے ایک محتاط بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے، ''یہ امریکی قرارداد پاکستان کی سیاسی صورت حال اور یہاں کے انتخابی عمل کے بارے میں نامکمل فہم و ادراک پر مشتمل ہے۔‘‘
پاکستان کے لیے امریکی حمایت ناگزیر
پاکستان کی علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کے زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے لیے امریکی حمایت ماضی کی طرح مستقبل میں بھی ہمیشہ غیر معمولی اہمیت کی حامل رہے گی۔ خاص طور سے آنے والے ہفتوں میں پاکستان کو واشنگٹن کی حمایت کی شدید ضرورت ہوگی کیونکہ اسے آئی ایم ایف کی طرف سے ایک تازہ بیل آؤٹ کے حصول کو یقینی بنانا ہے جو پاکستان کی بحران زدہ معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان میں اس قرارداد کے بارے میں ولسن سینٹر کے شعبہ جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ اس قرارداد کا واشنگٹن کی پاکستان سے متعلق پالیسی پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا، ''اس عمل نے یہ سوال ضرور اٹھایا ہے کہ کیا پاکستانی قانون سازی امریکی قرارداد کی دو طرفہ حمایت کی تقلید کرے گی؟‘‘
امریکی قرارداد کا خیرمقدم
اس امریکی قرارداد کا پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی نے، جس پر بطور جماعت الیکشن لڑنے پر پابندی عائد تھی، خیر مقدم کیا ہے۔ عمران خان کے ایک معاون ذوالفقار بخاری نے ایک ٹیکسٹ پیغام میں کہا، ''امید ہے کہ دیگر اقوام اور رہنما بھی امریکی ایوان نمائندگا کی مثال کی پیروی کریں گے۔‘‘
یاد رہے کہ 8 فروری 2024 ء کو پاکستانی انتخابات میں عمران خان کی پارٹی کے حامی آزاد امیدواروں نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں لیکن وہ حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ تعداد حاصل نہ کرسکے تھے۔ ان کے بجائے پی ٹی آئی کے حریفوں کے سیاسی اتحاد نے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت والی نئی پاکستانی حکومت بنائی تھی۔
ک م/ م م (روئٹرز)