چینی صدر وائٹ ہاؤس پہنچ گئے
19 جنوری 2011اس دورے کے دوران صدر باراک اوباما چین کے ساتھ جوہری تنصیبات کی سکیورٹی پر تعاون کے ایک معاہدے کا اعلان بھی کریں گے۔ ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعاون سے چین میں ایک نیوکلیئر سکیورٹی سینٹر قائم کیا جائے گا، جس کا مقصد جوہری تنصیبات کی سکیورٹی کے ساتھ ساتھ ایٹمی مواد کے ٹریکنگ سسٹم کو بہتر بنانا ہے۔ علاوہ ازیں دونوں ممالک میں تجارتی اور کرنسی کے مسائل پر بھی مذاکرات کیے جائیں گے۔
دونوں ممالک کے مابین چینی کرنسی یوآن کی قدرکے معاملے پر بہت عرصے سے بحث جاری ہے۔ امریکی حکومت اور ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ چین شعوری طور پراپنی کرنسی کی قدرکو کم رکھے ہوئے ہے۔ اس طرح وہ عالمی سطح پرغیر ضروری تجارتی فوائد حاصل کر رہا ہے، جس سے امریکی روزگار کی منڈی براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔
مبصرین کے خیال میں گزشتہ 30 برسوں کے دوران کسی چینی لیڈر کا امریکہ کا یہ اہم ترین دورہ ہے۔ کیونکہ اس دوران نا صرف چین امریکہ کے بعد دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے بلکہ عسکری اور سیاسی اعتبار سے بھی چین ایک بڑی قوت بن کر ابھرا ہے۔ دنیا میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو مزید واضح کرتے ہوئے اخبار فنانشل ٹائمز نے لکھا ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران چین نے ترقی پذیر ممالک کوعالمی بینک سے زیادہ قرضے دیے ہیں۔ اخبار کے مطابق2009ء اور2010ء کے دوران چین کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضوں کا حجم 110 ارب ڈالر بنتا ہے۔
دوسری جانب چینی خبر رساں ادارے 'شنہوا' نے بتایا ہے کہ بیجنگ حکومت کی جانب سے ایک تجارتی وفد چار روزہ دورے پر امریکی شہر ہیوسٹن میں ہے۔ اس دوران دونوں ممالک کے مابین چھ معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے، جن کی مالیت 574 ملین ڈالر بنتی ہے۔
گذشتہ رات واشنگٹن میں امریکی صدر باراک اوباما کے جانب سے چینی صدر کے اعزاز میں ایک عشائیہ بھی دیا گیا، جس میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے علاوہ دوسرے اہم رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ گزشتہ 13برسوں میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں کسی چین صدر کو سرکاری طور پر عشائیہ پر مدعو کیا گیا ہے۔ اس سے قبل 2006ء میں ہوجن تاؤ کو سابق امریکی صدر جارج بش نے عشائیے کے بجائے ظہرانہ دیا تھا، جسے چینی صدر نے اپنی تذلیل سے تعبیر کیا تھا۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عدنان اسحاق