1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈالر، ڈرامہ، ڈار اور ڈر

28 جنوری 2023

’انشا اللہ ہم معاشی دلدل سے نکلیں گے۔ پاکستان ترقی کرے گا، یہ میرا ایمان ہے‘۔ وسعت اللہ خان کا تازہ بلاگ پڑھیے۔

https://p.dw.com/p/4Mp4j
News Blogger Wusat Ullah Khan
تصویر: privat

انشا اللہ ہم معاشی دلدل سے نکلیں گے۔ پاکستان ترقی کرے گا، یہ میرا ایمان ہے۔ پاکستان دنیا میں رہنے کے لیے اللہ تعالی نے قائم کیا ہے، یہ واحد ملک ہے جو کلمہ شریف کے نام پر بنا تھا۔ حتی کہ سعودی عرب کلمہ شریف کے نام پر نہیں بنا۔

’اگر اللہ نے اسے بنایا تو اس کی حفاظت، ترقی اور خوشحالی بھی اللہ تعالی کے ذمے ہے۔‘ ( وزیرِ خالی خزانہ اسحاق ڈار ۔ ستائیس جنوری دو ہزار تئیس)۔

کہاں چار ماہ پہلے ہمارے ڈار پہلوان بڑک مارتے ہوئے پاکستان میں اترے تھے کہ میں نہ صرف ڈالر کو اس کی اصل اوقات ( ایک سو نوے روپے ) تک لاؤں گا بلکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بھی اپنی شرائط پر قرضہ لے کر دکھاؤں گا۔ بھلا مفتاح اسماعیل کیا جانے کہ معیشت کس چڑیا کا نام ہے اور آئی ایم ایف کو کیسے ڈرانا ہے۔

اور کہاں اب چار ماہ بعد  ڈالر دو سو چھیاسٹھ روپے کی حد پھلانگ  کے تین سو روپے  کی جانب بگٹٹ دوڑ رہا ہے۔ ڈار صاحب نے دونوں ہاتھ  ہوا میں اٹھا کے نہ صرف خود کو آئی ایم ایف کے روبرو ہینڈز اپ کر لیا ہے بلکہ اب تو  سارا معاملہ ہی اللہ کے حوالے کر دیا ہے۔

اب تو بساطی مہرے بھی جمائیاں لے رہے ہیں

اقتصادی مار اور ساتواں بیڑہ

اسحاق ڈار لاہور سے ہیں اور جس خاندان کے وہ سمدھی ہیں اس کا سات عشرے پرانا تعلق لاہور کی گوالمنڈی سے ہے اور گوالمنڈی میں تقسیم سے قبل کا ایک محاورہ آج تک چل رہا ہے کہ 'چنڈ مار کے پیریں پے جاؤ‘۔

ڈار نے آئی ایم ایف کے ساتھ یہی کیا اور اس گوالمنڈیانہ اسکول آف اکنامکس کی قیمت پاکستان کو پچھلے چار ماہ میں کرنسی ڈی ویلیو ایشن، کرنسی کی افغانستان و ایران کو اسمگلنگ، متوازی کرنسی بلیک مارکیٹ، درآمدی افراتفری، افراطِ زر اور کمزور قوتِ فیصلہ کی مد میں لگ بھگ چھ ارب ڈالر کے اقتصادی نقصان کی شکل میں چکانا پڑی ہے۔

اور آخر آخر  وہی سب کچھ کرنا پڑا جو چار ماہ پہلے بھی ہو سکتا تھا۔ اسے کہتے ہیں سو جوتے بھی کھاؤ اور سو پیاز بھی۔

( ڈار جب مسلم لیگ ن کی انیس سو نوے کے عشرے کی دو حکومتوں میں نواز شریف کے وزیرِ خزانہ تھے تو انیس سو اٹھانوے کے جوہری تجربات کے بعد غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس منجمد کرنے اور قرض اتارو ملک سنوارو اسکیم اور پیلی ٹیکسی منصوبے کی شدید ناکامی کے باوجود خود کو اپنے تئیں اقتصادیات کا جادوگر کہلوانا پسند کرتے تھے)

شائد آپ کو یاد ہو کہ جب اگست دو ہزار اٹھارہ میں عمران خان وزیرِ اعظم بنے تو ان کے وزیرِ خزانہ اسد عمر نے بھی کمال غیرت کا مظاہرہ  کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا۔ جب پاکستان کے تین چار بیرونی دوستوں نے بھی پاکستان کی یقین دہانیوں پر پہلے کی طرح اندھا اعتماد کرنے کے بجائے اپنی امداد کو آئی ایم ایف کے اعتمادی سرٹیفکیٹ سے مشروط کر دیا تب کہیں چار ماہ بعد مرتا کیا نہ کرتا اسد عمر کو آئی ایم ایف کے روبرو دو زانو ہو کر کہنا پڑا کہ 'آپ ٹھیک ہیں ہم غلط تھے۔ لاؤ اب پیسے دے دو اور جو چاہے لکھوا لو‘۔

اکبرِ اعظم اور لاہور کا سموگ

ہمارے بچے کہاں جائیں؟

تب یہی مسلم لیگ ن اور اس کے اقتصادی لال بھجکڑ نوآموز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کو طعنے دیتے رہے کہ آئی ایم ایف سے بروقت رجوع نہ کر کے اور خود کو اور پاکستانی عوام کو جھوٹی تسلیاں دے کر 'ناتجربہ کار سلیکٹڈ‘ حکومت نے قومی معیشت کو چوک پر بے لباس کھڑا کر دیا ہے۔

 آج اسی 'تجربہ کار گرم و سرد چشیدہ نونی سرکار‘ نے بعینہہ  آئی ایم ایف سے ڈیل کرنے کے ضمن میں وہی  کچھ کیا جو پی ٹی آئی کی ناتجربہ کار حکومت کر چکی تھی اور اب پی ٹی آئی کی باری ہے طعنہ زنی کی۔

پچھلی بار بھی اس وقت کے سپاہ سالار قمر جاوید باجوہ نے واشنگٹن جا کے امریکیوں سے درخواست کی تھی کہ آئی ایم ایف کو سمجھائیں کہ 'ہم سے اتنی سختی نہ برتے اور قسط دے دے‘۔ اس بار بھی نئے سپاہ سالار نے پہلے ریاض اور ابوظہبی کا دورہ کیا اور پھر دورے پر آنے والے امریکی وزارتِ خزانہ کے وفد نے اسحاق ڈار پر واضح کیا کہ بنیادی شرائط تو ماننا ہی ہوں گی۔ ان شرائط میں ڈالر کی لگام چھوڑنے اور تیل و گیس کے نرخ بین الاقوامی قیمتوں کے چارٹ سے جوڑنے سمیت سات بنیادی اصلاحات شامل ہیں۔

اس پر ڈار نے امریکیوں کو سینے پہ ہاتھ رکھ کے یقین دلایا  کہ نہ صرف ہم آئی ایم ایف کی مشاورت سے 'سخت فیصلے‘ کرنے پر تیار ہیں بلکہ 'ہم تو وہ فیصلے بھی کریں گے، جن کی آئی ایم ایف نے فرمائش بھی نہیں کی مگر ہمیں اپنی معیشت کو ٹھوس ستونوں پر کھڑا  کرنے کے لیے ان کڑوے فیصلوں کی ضرورت ہے جن کی سیاسی قیمت شائد مسلم لیگ ن کو اپنی انتخابی شکست کی صورت میں ادا کرنا پڑے‘۔

جب پاکستان ڈٰموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) ملک کی 'بگڑی معیشت‘  سنوارنے کے دعوے سے مسلح ہو کر گزشتہ اپریل میں آئینی راستے سے خان حکومت کا تختہ الٹ کے اقتدار میں آیا  تو اس وقت پی ڈی ایم قیادت  کا خیال تھا کہ خان صاحب کے تجربے سے تنگ  جنتا کا ووٹ کیش کرنے کے لیے فوری انتخابات کا اعلان کر دیا جائے۔ مگر نواز شریف، مریم اور مولانا فضل الرحمان  کے برعکس شہباز شریف اور آصف زرداری فوری انتخابات کے حق میں نہیں تھے۔

یہ فلم کئی بار دیکھی ہے

سفر درپیش ہے اک بے مسافت

اب نو ماہ بعد حکومت دلدل میں پھنس چکی ہے۔ نہ دوست ترس کھا رہے ہیں، نہ معیشت سنبھل رہی ہے اور نہ ہی اس کے نتیجے میں ووٹ بینک۔ حکومت اس جواری کی طرح اپنے پانسے کھیل رہی ہے، جسے مسلسل ہارنے کے باوجود امید لاحق رہتی ہے کہ اب جو پانسہ میں پھینکنے والا ہوں وہ اگلی پچھلی ہاری تمام رقم واپس کھینچ لے گا۔ اس منظر کو دیکھ کے اردگرد کھڑے لوگوں کا دم خشک ہو رہا ہے۔

عمران خان سے تو پی ڈی ایم نے حکومت کھینچ لی۔ اب پی ڈی ایم سے حکومت واپس لے کر کس کے حوالے کی جائے؟

دیر نہیں حرم نہیں ، در نہیں آستاں نہیں

بیٹھے ہی رہ گزر پہ ہم ، غیر ہمیں اٹھائے کیوں

( غالب )

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔