کراچی ادبی میلہ: دس ممالک سے دو سو سے زائد ادیبوں کی شرکت
11 فروری 2017آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر انتظام ساحل سے متصل ایک ہوٹل کے سبزہ زار میں منعقدہ اس لٹریچر فیسٹیول میں شہریوں کی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ پہلے ہی روز اس میں ہزارہا افراد شریک ہوئے۔
میلے کا باقاعدہ آغاز معروف کلاسیکل رقاص آصف سنیاں کی دلفریب پرفارمنس سے ہوا، جس کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی روح رواں امینہ سید اور آصف فرخی نے اپنی استقبالیہ تقاریر کیں جبکہ پہلے روز ہی بہترین فکشن، بہترین نان فکشن اور اردو ادب کی نئی بہترین کتب لکھنے پر مصنفین کو ایوارڈز بھی دیے گئے۔ معروف مصنف مستنصر حسین تارڑ اور عائشہ جلال نے بنیادی اہمیت کے حامل خطابات کیے جن کے بعد امینہ سید کی صاحبزادی شائمہ سید نے کلاسیکی رقص کیا، جس پر حاضری نے انہیں دل کھول کر داد دی۔
پہلے ہی روز ’پاکستانی موسیقی، راگ سے راک‘، کاروکاری اور ماحولیاتی تبدیلیوں اور ایٹمی جنگ کے موضوعات پر مذاکرے بھی منعقد ہوئے، جو شرکاء کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔
کاروکاری سے متعلق مذاکرے میں شریک پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے کہا کہ گزشتہ برسوں کے دوران کاروکاری کے سولہ سو واقعات کے چودہ سو سے زائد مقدمات درج کیے گئے تاہم صرف سینتالیس مقدمات ہی عدالتوں تک پہنچ پائے کیونکہ بقیہ مقدمات میں مدعیان نے ملزمان کو معاف کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اس سنگین مسئلے کے حوالے سے پاکستانی قوانین نوآبادیاتی دور کے ہیں، جنہیں اسلام کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے اور یہ تمام قوانین مظلومین کی نسبت ملزمان کو زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں اور ایٹمی جنگ کے موضوع پر منعقدہ مذاکرے میں پاکستان کے معروف ماہر طبیعیات پروفیسر پرویز ہودبھائی اور بوسٹن یونیورسٹی امریکا کے شعبہ طبیعیات کے نگران پروفیسر ضیا میاں کے درمیان مکالمہ بہت دلچسپ ثابت ہوا۔
پرویز ہودبھائی کا کہنا تھا کہ امریکا نہ صرف ایٹمی ہتھیار بنانے والا پہلا ملک ہے بلکہ وہ واحد ملک بھی، جس نے یہ ہتھیار استعمال بھی کیے ہیں۔ امریکا میں ان خوفناک ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ کرنے کا اخیتار صدر کے پاس ہے اور بدقسمتی سے امریکا کے موجودہ صدر ’ایک ایسے انسان ہیں، جن کی ذہنی صلاحیت بمشکل ایک آٹھ سالہ بچے‘ کی سی ہے۔ ’’تو کیا ان حالات میں دنیا محفوظ ہے؟‘‘
کل جمعے کے روز افتتاحی دن کی سب سے اہم اور آخری تقریب جرمن قونصل خانے کی طرف سے شرکاء کے اعزاز میں دیا جانے والا عشائیہ تھا، کیونکہ اسی عشائیے میں کراچی میں جرمن قونصل جنرل نے اس سال جرمن پیس پرائز جتنے والوں کو ایوارڈ دینے کا بھی اعلان کیا۔
کراچی پولیس کے سینیئر اہلکار عمر حامد کی کتاب ایک سیاسی کارکن کو بھی ایوارڈ سے نوازا گیا جبکہ عمر حامد نے اپنی اس کتاب کا جرمن زبان میں ترجمہ بھی کراچی میں جرمنی کے قونصل جنرل کو پیش کیا۔
ادبی میلے کے دوسرے روز ہفتے کے دن معروف مصنفہ ناصرہ زبیری کی کتاب کی تقریب رونمائی بھی ہوئی اور اداکارہ شبنم اور بشریٰ انصاری کے مابین مکالمے میں بھی شرکاء نے غیر معمولی دلچسپی لی۔ مشاعرہ شروع ہوا تو شرکاء دیگر تمام مصروفیات چھوڑ کر پنڈال میں جمع ہوئے اور ملک کے معروف شعراء کے کلام سے خوب لطف اندوز ہوئے۔
دوسرے روز کے اختتام پر ڈان ٹی وی کا مشہور پروگرام ’ذرا ہٹ کے‘ پیش کیا گیا۔ پروگرام کے میزبان مبشر زیدی، وسعت اللہ جان اور ضرار کھوڑو نے ملکی مسائل کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کر کے حاضرین سے خوب داد وصول کی۔
شرکاء نے کراچی میں اس لٹریچر فیسٹیول کے سالانہ بنیادوں پر انعقاد کو ایک احسن قدم قرار دیا تاہم فیسٹیول میں بھارتی ادیبوں اور شعراء کی کمی بھی محسوس کی گئی، جو پاکستان اور بھارت کے مابین موجودہ کشیدہ تعلقات کے باعث اس برس اس میلے میں شرکت نہ کر سکے۔