کشمیر پالیسی پر فوج کا کنٹرول؟ نواز شریف کی تقریر پر ردعمل
1 اکتوبر 2015پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے بدھ کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تھا۔ دفاعی تجزیہ کار ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے اقوام عالم کے سامنے پاکستان کا موقف بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’کشمیر کے معاملے پر وزیر اعظم نے اپنا نقطہٴ نظر کھل کر بیان کیا، انہوں نے بھارت کے ساتھ کشیدگی کے خاتمے کے لیے بھی کھلے ذہن اور دل کے ساتھ تجاویز پیش کیں، یہ دوسری بات ہے کہ دنیا ان چیزوں کو کس نظر کے ساتھ دیکھتی ہے‘۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ در اصل وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر پاکستانی فوج کا بنایا ہوا خارجہ پالیسی کا مسودہ تھا جسے انہوں نے اقوام متحدہ کے فورم پر پیش کر دیا۔
طلعت مسعود کے خیال میں یہ تاثر درست نہیں کہ خارجہ پالیسی خصوصاً کشمیر کا معاملہ فوج نے مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’اس میں شک نہیں کہ پاکستانی خارجہ پالیسی میں فوج کا خاصا اِن پُٹ ہے لیکن جہاں تک وزیر اعظم کی تقریر کا تعلق ہے، اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں سول حکومت کا اپنا اِن پُٹ زیادہ تھا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستانی فوج، سویلین قیادت اور عوام بھارت کے ساتھ پرامن تعلقات چاہتے ہیں لیکن بھارت سے متعلق فوجی اور سویلین قیادت کی اپروچ میں فرق ہو سکتا ہے۔‘‘
پیپلز پارٹی کی رہنما اور امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر شیری رحمان نے وزیراعظم کی تقریر پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر میں بیان کیا گیا چار نکاتی ایجنڈا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے شیری رحمان کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم کی تقریر غیر معمولی نہیں تھی لیکن یہ کمزور بھی نہیں تھی‘۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت کی پاکستان میں مداخلت کے حوالے سے ڈوسیئر پیش کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے بارے میں بھی دنیا کو حقائق بتانے کے حوالے سے ایک اہم موقع ضائع کر دیا گیا۔
سینیئر صحافی اور جیو ٹی وی سے وابستہ اینکر پرسن حامد میر کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں وزیر اعظم کی تقریر کا سب سے اہم نکتہ فلسطین کا ذکر کرنا اور کشمیر کو فلسطین کے ساتھ مماثل قرار دینا تھا۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے حامد میر نے کہا:’’یہ جو نواز شریف صاحب نے اپنی تقریر میں چار نکاتی ایجنڈا پیش کیا، یہ ماضی کی مختلف حکومتوں کا بھی نقطہٴ نظر تھا لیکن اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر فوجی حکمران جب جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے جاتے تھے تو وہ امریکا کی ناراضگی کے ڈر سے فلسطین کا ذکر نہیں کرتے تھے لیکن پاکستان کے منتخب وزیر اعظم نے اس کا ذکر کیا اور یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر فوج کی خارجہ پالیسی کا بریف نہیں تھی۔‘‘
تاہم حامد میر کے مطابق وزیر اعظم نے بھارت کےحوالے سے نرم رویہ اپنایا اور پاکستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت بھی یو این جنرل اسمبلی کے فلور پر نہیں لائے، جن کا ذکر انہوں نے بعد میں ایک پریس کانفرنس میں کیا۔
افغان امور کے تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے افغانستان کے ساتھ تعلقات کے معاملے کا بھی مناسب حد تک اظہار کیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے ہوں گے کہ افغان قیادت کو موقع دیا جائے کہ وہ ان کی بات کو موضوع بنا کر اس پر کسی قسم کا سخت رد عمل دے۔ انہوں نے کہا:’’میرے خیال سے انہوں نے دانشمندی کا ثبوت دیا اور ویسے بھی آپ دنیا کو بیک وقت یہ تاثر نہیں دے سکتے کہ آپ کی اپنے دونوں ہمسایوں کے ساتھ نہیں بن رہی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ افغان قیادت پہلے ہی پاکستان مخالف بیانات دے رہی تھی، ایسے میں وہ پاکستانی وزیر اعظم کی کسی بھی بات کو مزید غلط رنگ دے سکتے تھے۔