کیا عالمگیریت کا دور زوال پذیر ہو رہا ہے؟
4 اپریل 2022آپ نے عالمگیریت یا گلوبلائزیشن کے بارے میں تو یقیناﹰ سنا ہوگا، لیکن آپ کا ڈی گلوبلائزیشن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ سپلائی چَین میں رکاوٹیں، بڑھتے ہوئے اخراجات، قلت جیسے تمام معمول کے حقائق اس عمل سے منسلک ہوسکتے ہیں، جسے ڈی گلوبلائزیشن کہا جاتا ہے۔
بعض ماہرین کورونا وبا کے ساتھ ساتھ یوکرین جنگ کو گلوبلائزیشن کی تنزلی کی جانب ایک اہم موڑ قرار دے رہے ہیں۔ مگر دنیا کا یہ نیا نظام مستقبل میں کیسی شکل اختیار کرے گا؟
گلوبلائزیشن کی مختصر تعریف
ماہرین عام طور پر عالمگیریت کی تین اقسام بیان کرتے ہیں: معاشی، سماجی، اور سیاسی عالمگیریت۔
معاشی عالمگیریت تجارت کے اعتبار سے عالمی معیشت کا انضمام ہے۔ اس عمل کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ گلوبلائزیشن سے غربت کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے اور اس سے لوگوں کی زندگیوں کا معیار بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ تاہم بعض ناقدین اِس گلوبلائزڈ ورلڈ میں موجود عدم مساوات کی بھرپور مخالفت بھی کرتے ہیں۔
میونخ کی ایل ایم یو یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر آندریاس ورشِنگ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بین الاقوامی اور صنعتی معاشروں میں عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے بقول، ''جہاں معاشی عالمگیریت کی کامیابیاں ہیں، وہیں خامیاں بھی ہیں، انہیں رد نہیں جاسکتا۔‘‘
جرمن ادارے بیرٹلسمان فاؤنڈیشن سے منسلک ماہر معیشت کورا یُنگ بلوتھ عالمگیریت کے منفی سماجی اور ماحولیاتی اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ امیر ممالک کے ورکرز کی ملازمتیں کم اجرت والے ممالک میں منتقل ہونا شروع ہوگئیں۔ ''ملٹی نیشنل کارپوریشنز نے ترقی پزیر ممالک میں غیر منصفانہ طریقے سے کام کرنا شروع کردیا، جس کے نتیجے میں ماحولیاتی مسائل بھی پیدا ہوگئے۔‘‘
گلوبلائزیشن اور کساد بازاری
عالمگیریت کے نظام میں ملکی معیشت کا انحصار دیگر ممالک کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سن نوے سے دو ہزار تک دنیا بھر میں ملکوں کی آپس میں ہونے والی تجارت کے حجم میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ لیکن سن 2008 اور سن 2009 کے مالیاتی بحران کے بعد سے اس عمل میں واضح کمی ہونا شروع ہوگئی۔ امریکا میں ڈارٹماؤتھ کالج میں معیشت کے پروفیسر ڈگلس اِرون کہتے ہیں کہ یہ گراوٹ عوامیت اور تحفظ پسندانہ معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں لیکن گلوبلائزیشن کی اس تنزلی میں کئی اور دیگر اسباب بھی شامل ہیں۔
کورونا وبا کے اثرات
معاشی طور پر کورونا وبا کے بحران کے دوران سپلائی چین میں واضح طور پر کمی دیکھی گئی، جس کی وجہ سے سپرمارکیٹوں میں ٹوائلٹ پیپر سے لے کر ضروری اشیائے خور ونوش کی قلت اور قیمتوں میں بھی اضافہ نوٹ کیا گیا تھا۔ ہارورڈ کینیڈی اسکول کی سینئر فیلو اور ماہر معیشت میگن گرین کہتی ہیں کہ وبائی بحران نے ضرورت کے مطابق پیداوار کے رجحان کو کافی حد تک تبدیل کردیا۔ ان کے بقول اس سے ''گلوبل سپلائی چَین پلس‘‘ یا ایک بیک اپ پلان کا رجحان شروع ہوا تاکہ عالمی سپلائی چَین میں کسی قسم کی رکاوٹ کے باوجود مصنوعات کی قلت پر بروقت قابو پایا جا سکے۔
یُنگ بلوتھ نے اسی تناظر میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ''سپلائی چَین پلس‘‘ منصوبے کے تحت شاید ترقی یافتہ ممالک اور بین الاقوامی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی پیداوار اور مرکزی ٹیکنالوجی واپس اپنے ملکوں میں یا قریب تر ممالک میں منتقل کردیں۔ ''مؤثر کارکردگی اور اخراجات میں کٹوتی کے خاطر لیا جانے والا یہ عمل درحقیقت عالمگیریت سے دور ہونا ہے۔‘‘
اور اب یوکرین میں جنگ
صارفین یوکرین میں روسی حملوں کے منفی اثرات پہلے ہی محسوس کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روس پر عائد مغربی ممالک کی پابندیوں کے نتیجے میں توانائی اور زرعی مصنوعات کے شعبے بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک یوکرین اور روسی زرعی مصنوعات پر بڑے پیمانے پر انحصار کرتے ہیں۔ روس اور یوکرین گندم اور سن فلاور آئل کے بہت اہم عالمی برآمد کنندگان ہیں۔
ماہرین کے مطابق جنگ اور پابندیوں کے باعث برآمدات میں رکاوٹ آئی ہے اور اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف روس کے خلاف پابندیاں اس بڑی معیشت کو باقی دنیا سے الگ تھلگ کر رہی ہیں۔
اس حوالے سے یُنگ بلوتھ کہتی ہیں کہ یوکرین پر روسی فوجی چڑھائی کے اثرات صرف امیر ممالک پر مرتب نہیں ہوں گے بلکہ ترقی پذیر ممالک بھی اس سے شدید متاثر ہوں گے کیونکہ وہ ان دونوں ملکوں سے معیاری قیمتوں پر آٹا اور تیل کی درآمدات پر زیادہ انحصار کرتے رہے ہیں۔ ''یہ قحط کا باعث بھی بن سکتا ہے۔‘‘
کیا گلوبلائزیشن کا زوال شروع ہوچکا ہے؟
اس بارے میں ماہر معیشت میگن گرین کہتی ہیں، ''حالیہ بحران اور جنگ کے تناظر میں شاید ہم ایک طرح سے ڈی گلوبلائزیشن کے ابتدائی مرحلے میں موجود ہیں۔‘‘ انہوں نے لیکن اس بات پر بھی زور دیا کہ اب تک کہ سروے ڈیٹا کے مطابق کسی بھی کمپنی نے اپنے بیرون ملک آپریشن کو دوبارہ اپنے ملک میں منتقل کرنے کی حمایت نہیں کی ہے۔ گرین نے اس سے متعلق شنگھائی چیمبر آف کامرس کے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سروے میں ایک بھی امریکی کمپنی نے اس بات کی تائید نہیں کی کہ وہ چین سے واپس امریکا منتقل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔
گرین سمجھتی ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں گلوبلائزیشن کی رفتار میں کمی ضرور آئی ہے ''لیکن ہم ابھی تک ڈی گلوبلائزیشن کی حدود میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔‘‘
نئے عالمی بلاک
ماہرینِ معیشت کا خیال ہے کہ دنیا اس وقت واضح طور پر دو مختلف جیوپولیٹیکل اکنامک بلاکس کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس میں ایک جو جمہوری، مارکیٹ اکنامی پر مبنی ہے، جس میں امریکا، یورپی یونین، جاپان، جنوبی کوریا، شمالی اور جنوبی امریکا شامل ہیں۔ دوسرے بلاک میں آمرانہ طرزِ حکومت پر چلنے والے ممالک چین، روس اور ان کے اہم تجارتی پارٹنر شامل ہیں۔
یُنگ بلوتھ کے مطابق یہ جیوپولیٹکس یا جغرافیائی سیاست کی واپسی ہے اور یہ رجحان ڈی گلوبلائزیشن کی جانب گامزن دکھائی دیتا ہے۔
کیا ایک نئے عہد کا آغاز ہونے والا ہے؟
تاریخ کے پروفیسر آندریاس ورشِنگ کہتے ہیں کہ یہ ایک انتہائی مشکل بحث ہے۔ ان کے بقول ''آپ سن 2020 میں کورونا وائرس کی وبا اور اب سن 2022 میں یوکرین میں جاری جنگ کے دو اہم واقعات کو ایک ساتھ دیکھتے ہوئے یہ ضرور سوچ سکتے ہیں کہ بنیادی طور پر کچھ تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ ‘‘ ورشنگ کے مطابق یہ دونوں مختلف واقعات آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کیسے ملتے ہیں، یہ آنے والے وقت میں ہی واضح ہوسکے گا۔
سونیا انگلیکا ڈیہن (ع آ / ع ح)