پاکستان: بجٹ سے وابستہ تفکرات
10 جون 2024سنگین معاشی بحران کے شکار جنوبی ایشیائی ملک پاکستان کا آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ بُدھ کو پیش کیا جانا ہے۔ حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کی ممکنہ کوششیں کر رہی ہے۔ ملکی مالیاتی بجٹ پیش کر کے اسلام آباد حکومت کوشش کرے گی کہ کسی طرح آئی ایم ایف کو بیل آؤٹ ڈیل پر رضامند کر لیا جائے۔ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔
جنوبی ایشیا کے خطے میں دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی معیشت سب سے سست رفتاری کا شکار ہے۔ اس ملک کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے 6 تا 8 بلین ڈالر کے درمیان قرض کی مدد درکار ہے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے شعبہ اقتصادیات کے سربراہ علی حسنین نے کہتے ہیں، '' یہ بجٹ پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔ اس وقت پاکستان کے لیے کل اخراجات اور ریونیو اکٹھا کرنے کے درمیان فرق کو ختم کرنا ضروری ہے۔‘‘
یاد رہے کہ پاکستان حال ہی میں آئی ایم ایف کے ایک قلیل مدتی تین بلین ڈالر کے بیل آؤٹ کے سبب ڈیفالٹ سے بال بال بچا تھا۔ تاہم حکومت کو مالیاتی اور بیرونی خسارے پر قابو پانے کی قیمت یہ ادا کرنا پڑی کہ اس کی صنعتی سرگرمیوں میں واضح کمی لانا پڑی اور ملک میں مہنگائی کی شرح انتہائی بلند ہو گئی۔ پاکستان میں گزشتہ مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح 30 فیصد تھی جو کہ گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران 24.52 فیصد تک پہنچ چُکی ہے۔
آئندہ سال کے لیے ملک کی پیداواری ترقی کے گزشتہ سال کے 2 فیصد اور اقتصادی سکڑاؤ سے بڑھ کر3.6 فیصد ہونے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم کا اقتصادی ترقی کا عزم
فروری میں منتخب ہونے کے بعد سے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے سخت اصلاحات کے عزم کا سر عام اعلان کیا ہے۔ تاہم عام ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ، بے روزگاری اور نئی ملازمت کے مواقع کی کمی ان کے حکومتی اتحاد پر سخت سیاسی دباؤ کا سبب بنی ہے۔
گزشتہ ماہ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ نے بجٹ کے بارے میں ایک نوٹ میں یہ پیشگوئی کر دی کہ شریف حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی ممکنہ تمام شرائط اور اقدامات کو مکمل طور پر نافذ کرنا بہت کٹھن ہوگا۔ آئی ایم ایف کے مطالبات میں ٹیکس میں وسعت کے ذریعے آمدنی میں اضافہ اور بجلی کے نرخوں میں اضافے جیسے مشکل فیصلے حکومت کے لیے مشکل ہوں گے۔
اسٹینڈرڈ چارٹرڈ نوٹ میں مزید کہا گیا کہ،''ایک کمزور مخلوط حکومت، ایک مضبوط اور مقبول اپوزیشن اور گہری جڑوں والی اسٹریکچرل اصلاحات کو احتیاطی تدابیر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔‘‘
ک م/ ع ب(روئٹرز)