کیا پاکستان کو ایک نئی انسداد فسادات فورس کی ضرورت ہے؟
30 نومبر 2024وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں حالیہ احتجاج کے بعد ایک خصوصی انسداد فسادات فورس کی تشکیل کے حکم نے پہلے ہی سیاسی تقسیم سے دوچار ملک میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اس حکومتی فیصلے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اختلاف رائے کے خاتمے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے جبکہ اس فیصلے کے حامی اسے ایک بروقت اور قانون کے مطابق اقدام قرار دے رہے ہیں۔
وزیرِاعظم کی زیرِ صدارت امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے اس اجلاس میں گزشتہ دنوں ملک میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران سرکاری املاک اور اہلکاروں کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ اس اجلاس میں حکومتی وزرا کے علاوہ امن و امان کے قیام سے متعلق اعلیٰ سرکاری عہدیداروں نے شرکت کی۔
وزیرِاعظم نے اجلاس کے شرکا کو ملک کے کسی بھی شہر پر ذاتی مقاصد کے حصول کی خاطر لشکر کشی روکنے کے لیے جامع حکمت عملی مرتب کرنے کی ہدایات دیں۔
شہباز شریف کا مزید کہنا تھا،''مظاہرین سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد اور ملک بھر میں اینٹی رائٹس یعنی فسادات سے نمٹنے کے لیے ایک فورس قائم کی جائے۔ اس فورس کو بین الاقوامی طرز پر پیشہ ورانہ تربیت اور ضروری سازوسامان سے لیس کیا جائے۔‘‘
ہماری پولیس ہرفن مولا نہیں، وزیردفاع
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے وزیر اعظم کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں ایسی خصوصی فورسز موجود ہیں، جو ہجوم اور دنگا فساد کو کنٹرول کرنے کے مقصد سے تشکیل دی گئی ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، '' دنیا کے کسی بھی بڑے جمہوری ملک کی مثال لے لیں، امریکہ کی ہی بات کر لیں تو آپ کو وہاں مظاہروں اور احتجاج کو ہینڈل کرنے کے لیے کئی پرتوں پر مشتمل فورسز نظرآتی ہیں۔ وہاں خصوصی اینٹی رائٹس یونٹس موجود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ رینجرز ہیں، نیشنل گارڈز ہیں اور یہ سب ایک ترتیب کے ساتھ کام کرتے ہیں۔‘‘
خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا،''ہمارے ہاں پولیس کو ہرفن مولا سمجھا جاتا ہے، جو درست نہیں، ایک اچھی اور منظم پولیس میں مختلف شعبے ہوتے ہیں، جو اپنا اپنا کام سر انجام دیتے ہیں، جیسے کے انوسٹی گیشن کا شعبہ الگ، پراسیکویشن کا الگ، جرائم سے نمٹنے اور لا اینڈ آرڈر کے قیام کے لیے الگ الگ شعبے ہوتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر جدید اور بین الاقوامی خطوط پر ایک ایسی فورس تشکیل دی جاتی ہے، جو مظاہروں اور ہجوم سے نمٹنے کی مہارت رکھتی ہو تو یہ ایک اچھا قدم ہو گا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا، ''اب یہ اور بھی ضروری ہو گیا ہے کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر پندرہ دن بعد ملکی دارالحکومت پر دھاوا بول کر کاروبار زندگی معطل اور لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا جاتا ہے۔‘‘
'اسٹیبلشمنٹ کا حکم‘
تاہم حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل حامد خان نے حکومتی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ سب اپنے ظلم و جبر کو چھپانے کے ہتھکنڈے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے حامد خان کا کہنا تھا، ''سب کو پتہ ہے کہ پی ٹی آئی کے نہتے کارکنوں کے ساتھ چھبیس نومبر کی رات اسلام آباد میں کیا ظلم کیا گیا اور کس نے کیا؟‘‘
حامد خان کا مزید کہنا تھا، '' یہ کوئی منتخب حکومت تھوڑا ہی ہے۔ یہ کٹھ پتلیاں ہیں، ان کی ڈور سب کو پتہ ہےکہ کس کے ہاتھ میں ہے، یہ خود کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ یہ شوشہ (نئی فورس بنانے کا) بھی انہوں نے اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے اپنے آقاؤں کے حکم سے چھوڑا ہے۔ یہ خود کچھ بھی نہیں کر سکتے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کا یہ فیصلہ امن وامان کے قیام میں اپنی ناکامیاں دوسروں کے سر تھوپنے کی ایک کوشش ہے، اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
ملک میں امن و امان کے قیام سے متعلق اجلاس کی سربراہی کے دوران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مظاہروں اور احتجاج کی وجہ سے ملکی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے چوبیس نومبر کے دھرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''جیسے ہی بدنظمی پیدا کرنے والا ٹولہ ہٹا، اسٹاک ایکسچینج ایک لاکھ پوانئٹس عبور کر گی۔‘‘
نیا کیا ہے؟
خیال رہےکہ وزیر اعظم کا وفاق کی سطح پر ایک باقاعدہ انسداد فسادات فورس کے قیام کا فیصلہ تو شاید ایک نئی پیشرفت ہو مگر یہ خیال پاکستان میں نیا نہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی پولیس ویب سائٹ کے مطابق شہر میں فسادات سے نمٹنے کے لیے ایک انسداد فسادات فورس موجود ہے۔
اس کے تعارف میں لکھا گیا ہے کہ اینٹی رائٹس پولیس ایک خاص قسم کی پولیس فورس ہے، جو احتجاجی ہجوم کا مقابلہ کرنے کے لیے تشکیل دی گئی۔ یہ فورس تشدد اور فسادات پر قابو پانے کے لیے ترکی کے شہر استنبول کی پولیس سے تربیت یافتہ ہے اور جدید سازوسامان سے لیس ہے۔ لاہور سٹی پولیس کی ویب سائٹ کے مطابق اس یونٹ کو متعدد گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کے پاس گشت اور نگرانی کے لیے خصوصی گاڑیاں ہیں۔ مزید یہ کہ اینٹی رائٹ فورس کو ہر سال پاکستان سپر لیگ کے ہجوم کی کڑی نگرانی کا کام سونپا جاتا ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔
انسپکڑ جنرل آف پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے کہ انسداد فسادات فورس کا وجود 1930ء سے برصغیر میں موجود ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' انسداد فسادات فورس کا آئیڈیا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے 1930ء پھر 1950ء اور آخری مرتبہ 2008ء میں اس کا نفاز کیا جا چکا ہے، لیکن اصل بات اس کی وقت کے ساتھ ساتھ اپ گریڈیشن ہے۔‘‘
آئی جی پنجاب پولیس کا مزید کہنا تھا، ''بے شک وقت کے ساتھ ساتھ اینٹی رائٹس فورس کی مزید تربیت اور ان کو جدید سازوسامان کی فراہمی ایک اہم معاملہ ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے۔ میرے خیال میں اگر اس پر باقاعدگی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے اور ایک اسپیشلائزاڈ فورس کو فعال کیا جاتا ہے تو یہ ایک پروفیشنل اور بین الاقوامی معیار کا اقدام ہو گا۔‘‘
'حکومت سنجیدہ نہیں‘
تاہم وزیر اعظم کے ایک نئی فورس کے قیام کے حکم کے ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کا فوکس صرف اختلاف کو دبانے پر ہے۔ انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری کا کہنا ہے کہ حکومتی ترجیحات اس کی غیر سنجیدگی کی مظہر ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' حکومت جبری گمشدگیوں اور خراب معیشت جیسے بڑے مسائل کو نظر انداز کر تے ہوئے صرف اس بات پر غور کر رہی ہے کہ پرُامن اجتجاج کا راستہ کس طرح روکا جائے، کس طرح معاشرے میں دہشت پیدا کی جائے۔ تو اس نئی اینٹی رائٹس فورس کی جو بات کر رہے ہیں اس کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا ہو گا۔‘‘
البتہ سینئیر صحافی اور اینکر پرسن ابصار عالم کاکہنا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں ہجوم پر کنٹرول کے لیے ایک خصوصی فورس کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' یہ فورس بہت پہلے سے موجود ہونی چاہیے تھی، جو ہجوم کی نفسیات کو سمجھے، یہ دیکھے کہ ہجوم کو منتشر کرنے کے کیا طریقے ہو سکتے ہیں اور اس کے لیے تشدد پہلا مرحلہ نہیں ہو نا چاہیے۔‘‘
ابصار عالم کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں ریگولر پولیس، رینجرز اور حتٰی کہ فوج سے مظاہرین کو قابو کرایا جاتا ہے، جو بقول ان کے بعض مرتبہ انتہائی کشیدگی کو جنم دیتا ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ا بھی پی ٹی آئی کے تازہ احتجاج کی مثال لیں کوئی کہہ رہا ہے پولیس نے گولی چلائی، کوئی کہہ رہا ہے رینجرز نے اور کوئی کہہ رہا ہے فوج تھی۔ اس لیے مستقبل میں اگر ایک باقاعدہ فورس بن جاتی ہے تو آپ کو کسی قانونی خلاف ورزی کی صورت میں ذمہ داروں کا تعین کرنے میں آسانی ہو گی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''جب ریگولر پولیس مظاہرے روکنے چلی جاتی ہے تو دوسری طرف جرائم پیشہ عناصر کو وارداتیں کرنے کا موقع مل جاتا ہے، اس طرح امن وامان کی مجموعی صورتحال خراب ہونے لگتی ہے۔ اگر پولیس کو اپنا روزمرّہ کا کام کرنے دیا جائے تو جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‘‘
اصل مسئلہ قانون پرعملدرآمد
پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اکثر خود قانون پر عمل پیرا نہ ہونے کے الزامات کا سامنا کرتے ہیں۔ ایسے میں ایک نئی فورس کے قیام کے اعلان پر شکوک وشہبات کا اظہار کیا جانا کوئی غیر معمولی پیشرفت نہیں ہے۔ ایمان مزاری کا کہنا کہ اصل مسئلہ ریاستی اداروں کی جانب سے قوانین کی پاسداری کا ہے۔ انہوں نے کہا،'' بین الاقوامی سطح پر ایسے قوانین موجود ہیں، جو بتاتے ہیں کہ ہجوم سے کیسے ڈیل کیا جائے۔ کیا طاقت کا استعمال کیا جانا چاہیے، تو میرے خیال میں پی ایم (شہباز شریف) صاحب کو یہ علم نہیں کہ کوئی بھی فورس بنائی جائے وہ قوانین کے تابع ہوتی ہے، اورکیا ہمارے ہاں پہلے سے موجود فورسز قانون پر عمل کر رہی ہیں؟‘‘
ایمان مزاری کا مزید کہنا تھا، '' وزیر اعظم کے اس حکم سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انہیں کسی اور نے کسی اور کے کندھوں پر بٹھا کر حکومت میں کسی اور کام کے لیے لایا ہے، انہیں عوام کے لیے نہیں لایا گیا۔‘‘