1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

یمن: صنعا ایئرپورٹ پر سعودی عسکری اتحاد کے فضائی حملے

21 دسمبر 2021

حملے سے قبل شہریوں اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو وہاں سے نکل جانے کو کہہ دیا گيا تھا۔ اس ایئر پورٹ پر حوثی باغیوں کا قبضہ ہے اور ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان حملوں سے جانی یا پھر مالی نقصان کتنا ہوا۔

https://p.dw.com/p/44byE
Kampfjet der saudi-arabischen Luftwaffe
تصویر: Rob Edgcumbe/StockTrek Images/imago images

سعودی عرب کے حکومتی نشریاتی ادارے العربیہ کے مطابق سعودی عرب کی قیادت والے فوجی اتحاد نے 20 دسمبر پیر کے روز یمن کے دارالحکومت صنعا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کے لیے اس پر فضائی حملے کیے۔

حملے کے بارے میں کیا معلومات ہیں؟

سعودی قیادت والے عسکری اتحاد کا کہنا ہے اس حملے میں ہوائی اڈے پر موجود "درست فوجی اہداف" کو نشانہ بنایا گیا۔ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہوائی اڈے کی تنصیبات کو سرحد پار حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

العربیہ کے مطابق فوجی اتحاد نے حملے سے قبل ہی تمام شہریوں اور اقوام متحدہ کے امدادی کارکنوں پر زور دیا تھا کہ وہ اس علاقے کو خالی کر دیں۔ اس فضائی حملے سے ایئر پورٹ کو کیا نقصان پہنچا اس بارے میں ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ہے اور نہ ہی ہلاکتوں سے متعلق کوئی واضح اطلاعات فراہم کی گئی ہیں۔

سعودی اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں عسکری اتحاد نے چھ مقامات کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے مزید کہا، "ان اہداف کو تباہ کرنے سے ہوائی اڈے کی آپریشنل صلاحیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔" اس سے قبل اتوار کے روز اتحاد نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے ایئرپورٹ سے داغے جانے والے ایک ڈرون کو تباہ کر دیا جس کا مقصد سعودی سرزمین کو نشانہ بنانا تھا۔

یمن کے دارالحکومت صنعا کے ہوائی اڈے پر سعودی عرب کے علاقائی حریف ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کا کنٹرول ہے۔ حوثی باغی حالیہ برسوں میں سعودی عرب پر راکٹوں سے حملے کرتے رہے ہیں، تاہم اکثر ایسے حملوں سے نقصان بہت کم پہنچتا ہے۔

Kampfjet der saudi-arabischen Luftwaffe
تصویر: Riccardo Niccoli/StockTrek Images/imago images

یمن میں دنیا کا بد ترین انسانی بحران

 صنعا کا یہ ہوائی اڈہ پہلے سے ہی اقوام متحدہ کے زیر اہتمام انسانی امداد کی پروازوں کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ عرب دنیا کے سب سے غریب ملک یمن سن 2014 میں خانہ جنگی کی لپیٹ میں آنے کے بعد سے ہی دنیا کے بدترین انسانی بحران کا سامنا ہے۔

یمن میں گزشتہ پانچ برسوں سے جنگ جاری ہے جہاں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی بین الاقومی سطح پر تسلیم شدہ یمنی حکومت سے بر سر پیکار ہیں۔ سعودی اور علاقے کے دیگر اس کے اتحادی بھی اس جنگ میں حکومت کے حامی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں تقریبا ًدو کروڑ لوگ، یعنی ملک کی ایک تہائی آبادی، کو ہر طرح کی امداد کی سخت ضرورت ہے۔ 

حوثی باغیوں نے ستمبر 2014 سے ہی صنعا کو اپنے  کنٹرول میں کر رکھا ہے اور سعودی عرب نے سن 2015 میں اس خوف کے تحت اس گروپ کے خلاف عسکری کارروائی شروع کی تھی کہ اگر اس نے احتیاطی تدابیر نہ کیں تو اس کے مفاد کو نقصان پہنچے گا اور ایران کو خطے میں مزید قدم جمانے کا موقع مل جائے گا۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان 2016 میں تعلقات منقطع  ہو گئے تھے لیکن حالیہ مہینوں میں مشرق وسطیٰ کے دونوں اہم ملکوں کے نمائندوں نے اپنے متنازعہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بات چیت کی ہے۔

 ص ز/ع ب  (روئٹرز، ڈی پی اے)

فاقہ کشی کا شکار یمنی بچے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں