آسیہ کے شوہر کو بیوی کی سلامتی سے متعلق گہری تشویش: انٹرویو
3 نومبر 2018پاکستان کی مسیحی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والی آسیہ بی بی کو اپنے خلاف توہین مذہب کے الزامات کا سامنا تھا۔ انہیں 2010ء میں سزائے موت سنا دی گئی تھی لیکن اکتیس اکتوبر بدھ کے روز پاکستانی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ان کی سزائے موت کے دو ذیلی عدالتوں کے گزشتہ احکامات منسوخ کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔
آسیہ بی بی ابھی جیل میں
اس فیصلے کے بعد، جو پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود سنایا تھا، ملک بھر میں اسلام پسند حلقوں اور مسلم مذہبی تنظیموں کی طرف سے مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جس دوران بڑی تعداد میں نجی املاک کو نقصان بھی پہنچایا گیا تھا۔ اس فیصلے کے دو روز بعد یہ افواہیں بھی پاکستانی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں کہ آسیہ کو جیل سے رہا کیے جانے کے بعد مبینہ طور پر بیرون ملک بھجوایا جا چکا ہے۔ تاہم پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کے انسپکٹر جنرل شاہد سلیم بیگ نے ہفتہ تین نومبر کو ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے یہ تصدیق کر دی تھی کہ آسیہ ابھی تک پنجاب ہی کی ایک جیل میں ہیں اور جیل حکام ان کی رہائی کے لیے سپریم کورٹ کے تحریری احکامات اپنے تک پہنچنے کے انتظار میں ہیں۔
اس پس منظر میں آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح نے ہفتہ تین نومبر کو ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ انہیں اپنی اہلیہ کی سلامتی کے بارے میں گہری تشویش لاحق ہے اور آسیہ بی بی پر ممکنہ طور پر جیل کے اندر ہی کوئی حملہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
’ہم خوف زدہ ہیں‘
گزشتہ قریب دس برسوں سے جیل میں قید آسیہ نورین عرف آسیہ بی بی کے شوہر نے ڈوئچے ویلے کو بتایاکہ سپریم کورٹ کی طرف سے آسیہ کی رہائی کے حکم کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کو رکوانے کے لیے جس طرح حکومت اور مظاہروں پر اتر آنے والے مذہب پسند مسلم گروپ تحریک لبیک کے مابین معاہدہ ہوا ہے، اس نے ’’ہمیں مزید خوفزدہ کر دیا ہے۔‘‘
عاشق مسیح نے کہا، ’’میں، میرا خاندان، میرے دوست، ہم سب خوفزدہ ہیں۔ ایسا کوئی بھی معاہدہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جب سپریم کورٹ کے تین ججوں نے اس مقدمے میں ہر طرح کے حالات و واقعات اور تمام ممکنہ تفصیلات کا جائزہ لے کر اپنا فیصلہ سنایا ہے، تو پھر حکومت کو متشدد مظاہرین کے ساتھ ایسا کوئی سمجھوتہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ میری رائے میں سپریم کورٹ کو اس معاملے کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔‘‘
عاشق مسیح سے جب یہ پوچھا گیا کہ ان کی رائے میں اب ہو گا کیا، تو انہوں نے کہا، ’’میرے بیوی پہلے ہی بہت تکلیفیں برداشت کر چکی ہے۔ اس نے دس سال جیل میں گزارے ہیں۔ حالیہ عدالتی فیصلے سے ہمیں امید کی ایک کرن نظر آئی ہے۔ میں اور میرے اہل خانہ اس بارے میں بہت بے چین ہیں کہ ہماری آسیہ سے ملاقات کب ہو گی۔ میری بیٹیاں بھی اپنی والدہ سے ملاقات کی منتظر ہیں۔ لیکن اب اگر دوبارہ کوئی جائزہ اپیل دائر کر دی گئی، تو معاملہ پھر طول پکڑ جائے گا اور آسیہ کو ممکنہ طور پر اس وقت تک مسلسل جیل میں رہنا پڑے گا، جب تک کہ ایسی کسی نئی جائزہ اپیل کا فیصلہ نہیں آ جاتا۔‘‘
مظاہروں کے ذریعے دباؤ
کیا پاکستانی عدلیہ آسیہ بی بی کے معاملے میں کوئی بھی ممکنہ دباؤ قبول کر سکے گی، اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں عاشق مسیح نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’عدلیہ نے بڑی غیر جانبداری، اصول پسندی اور ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے اپنا تازہ ترین فیصلہ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہے۔ لیکن اب اگر کوئی نئی اپیل دائر کر دی گئی، تو یہی شدت پسند مذہبی حلقے دوبارہ سپریم کورٹ کے باہر جمع ہو کر عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ اس لیے کہ یہ مسلم مذہبی حلقے اپنے طور پر یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ سپریم کورٹ نے چند روز قبل اپنا جو فیصلہ سنایا، وہ غلط ہے۔ حالانکہ عدالت نے تو یہ فیصلہ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے سنایا ہے۔‘‘
عدالت میں جاتے ہوئے خوف
اس سوال کے جواب میں کہ اگر سپریم کورٹ میں کسی نئی جائزہ اپیل کی سماعت ہوئی، تو کیا وہ عدالتی کارروائی میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے خود کو محفوظ تصور کریں گے، آسیہ بی بی کے شوہر نے کہا، ’’موجودہ صورت حال بہت خطرناک ہے۔ ہمارے پاس کوئی سکیورٹی نہیں اور ہم چھپتے پھرتے ہیں۔ بار بار وہ جگہیں بدل لیتے ہیں، جہاں ہم رہتے ہیں۔ مجھے عدالت میں ایسی کسی کارروائی کے لیے دوبارہ جاتے ہوئے واقعی بہت زیادہ خوف کا سامنا ہو گا۔‘‘
’جیل میں بھی حملے کا خطرہ‘
اس سوال کے جواب میں کہ آسیہ بی بی کی حالت اب کیسی ہے، عاشق مسیح نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں حالیہ عدالتی فیصلہ سنائے جانے کے بعد سے اب تک آسیہ کو مل نہیں پایا۔ لیکن جب یہ فیصلہ کیے جانے کے بعد محفوظ کر لیا گیا تھا، تو میری اپنی بیوی سے ایک ملاقات ہوئی تھی۔ تب اس نے کہا تھا کہ اب سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے، وہ اسے قبول کر لے گی۔ میرے خیال میں آسیہ کے لیے یہ صورت حال بہت پرخطر ہے۔ اس کی زندگی محفوظ نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسی طرح کے ایک مقدمے میں فیصل آباد کے دو مسیحی شہری، جن کو ایک عدالت نے بری کر دیا تھا، انہیں بھی ایک سال قبل قتل کر دیا گیا تھا۔ انہیں بھی اپنے خلاف توہین مذہب کے الزامات کا سامنا تھا۔ اس لیے میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ جیل میں آسیہ کے حفاظت کے لیے موجودہ انتظامات کو مزید بہتر بنائے۔‘‘
ایس خان، اسلام آباد / م م / ع ت