مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی، پاکستانی مسیحی کو سزائے موت
1 جولائی 2024پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر ملتان سے پیر یکم جولائی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق عدالت نے مسیحی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے ملزم کو یہ سزا، جس آن لائن مواد کے شیئر کرنے پر سنائی، وہ عدالت کے مطابق مسلمانوں کے خلاف نفری انگیزی پر مبنی تھا اور ملزم نے اسے گزشتہ برس اسی صوبے میں مسیحی اقلیتی املاک پر ایک مشتعل ہجوم کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کے بعد سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا۔
توہین مذہب کے الزام پر قتل، ہجوم میں شامل 23 افراد گرفتار
ملزم کو سزائے موت کا حکم سنائے جانے کی اس کے وکیل صفائی نے بھی تصدیق کر دی ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی۔
گزشتہ برس اگست کے پرتشدد واقعات
گزشتہ برس اگست میں پاکستانی صوبے پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں ملک میں مسلم اکثریتی آبادی سے تعلق رکھنے والے مشتعل مظاہرین کے ایک ہجوم نے مسیحی اقلیت کے درجنوں گھروں اور گرجا گھروں کو نذر آتش کر دیا تھا۔ یہ پرتشدد واقعات پاکستانی مسیحی اقلیتی آبادی پر مشتعل افراد کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کی بدترین مثالوں میں سے ایک قرار دیے گئے تھے۔
پاکستان متاثرین مسیحیوں کو فی کس دو ملین روپے ادا کرے گا
قریب ایک سال قبل بلوائیوں کے ان حملوں کی وجہ جڑانوالہ شہر کے چند رہائشیوں کی طرف سے لگایا گیا یہ الزام بنا تھا کہ تب دو مقامی مسیحی باشندے مبینہ طور پر مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن کے صفحات پھاڑ پھاڑ کر زمین پر پھینک رہے تھے اور چند دیگر صفحات پر مبینہ طور پر توہین آمیز الفاظ لکھ رہے تھے۔ ان الزامات کے بعد دونوں مسیحی شہریوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
توہین قرآن کے الزام میں مشتعل ہجوم نے مقامی سیاح کو ہلاک کر دیا
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جڑانوالہ شہر میں مسیحیوں کے کئی گھر اور چرچ نذر آتش کیے جانے کے واقعات کے بعد پولیس نے مشتعل مسلمانوں کے ہجوم میں شامل 100 سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ یہ بات تاہم ابھی تک غیر واضح ہے کہ آیا ان میں سے کسی کو کسی عدالت کی طرف سے اب تک کوئی سزا بھی سنائی گئی ہے۔
ملزم احسان شان پر لگایا جانے والا الزام
جڑانوالہ شہر میں آتش زنی کے ان واقعات کے بعد احسان شان نامی ملزم نے، جس کا قرآن کی بے حرمتی کے مبینہ واقعے سے کوئی تعلق نہیں تھا، مبینہ طور پر قرآن کے کچھ مسخ شدہ صفحات کی تصاویر اپنے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر شیئر کی تھیں۔
احسان شان کے وکیل خرم شہزاد نے آج پیر کے روز نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ صوبہ پنجاب میں ساہیوال کی ایک ضلعی عدالت نے گزشتہ ہفتے کے روز احسان شان کو سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد شیئر کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنا دی۔ خرم شہزاد نے کہا کہ وہ اپنے مؤکل کی طرف سے اس سزا کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کریں گے۔
سرگودھا میں مسیحیوں پر حملہ، مزید گرفتاریاں اور مقدمات
احسان شان کو ان کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کے بعد گرفتار کرنے والے پولیس افسر عامر فاروق کے مطابق، ''ملزم نے ایک ایسے وقت پر بہت حساس نوعیت کا نفرت انگیز مواد اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کیا تھا، جب حکام پہلے ہی جڑانوالہ شہر میں پرتشدد واقعات پر قابو پانے کی کوششیں کر رہے تھے۔‘‘
مسیحی پادری کا موقف
ساہیوال شہر میں ایک چرچ کے پادری نوید کاشف نے کہا ہے کہ جو کچھ احسان شان نے شومل میڈیا پر گزشتہ برس پوسٹ کیا تھا، وہ اسے درست تو نہیں سمجھتے، تاہم ان کے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ عدالت نے شان کو انتہائی نوعیت کی سزا کا حکم سنایا ہے، وہ بھی ایسے حالات میں جب جڑانوالہ شہر میں مسیحی آبادی کے گھروں اور عبادت گاہوں پر حملے کرنے والے بلوائیوں میں سے کسی کو بھی سزا نہیں سنائی گئی۔
اقلیتی ملزم کی رہائی: مذہبی طبقہ سپریم کورٹ سے ناراض کیوں؟
پاکستان میں کسی نہ کسی اقلیتی شہری پر توہین مذہب کا الزام لگایا جانا بار بار دیکھنے میں آتا ہے۔ ملک میں نافذ توہین مذہب اور توہین اسلام کے خلاف قوانین کے تحت اگر کسی ملزم کو اسلام، قرآن یا مذہبی شخصیات کی توہین یا تضحیک کا مرتکب پایا جائے تو عدالت اسے موت کی سزا سنا سکتی ہے۔
م م / ا ا، ر ب (اے پی)