پاکستان: عمران خان کا لانگ مارچ جمعے سے شروع
26 اکتوبر 2022پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے منگل کے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مجوزہ لانگ مارچ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا مارچ ہو گا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کا لانگ مارچ کوئی سیاست نہیں ہے بلکہ "ہم پاکستان کے مستقبل کے لیے لڑ رہے ہیں، ہم پاکستان کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔"
سابق وزیر اعظم نے کہا، "ہم پرامن رہیں گے اور ہم صرف یہ دکھائیں گے کہ قوم کہا ں کھڑی ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ یہ حقیقی آزادی کا مارچ ہے اور اس کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں ہے۔
اپوزیشن رہنما نے کہا کہ ان پر غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنانے کے الزامات لگائے جارہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس وقت جب کہ ملک مشکل میں وہ ایسے مشکل وقت میں احتجاج کیوں کر رہے ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف تین لانگ مارچ ہوئے، جن میں سے دو مولانا فضل الرحمان اور ایک بلاول بھٹو زرداری نے کیا لیکن "ہم نے تو کسی کو لانگ مارچ سے نہیں روکا۔"
لانگ مارچ لاہور کے لبرٹی چوک سے شروع ہوگا
عمران خان نے بتایا کہ جمعے کو صبح گیارہ بجے لبرٹی چوک سے ان کا لانگ مارچ شروع ہوگا اور وہ جی ٹی روڈ سے عوام کو ساتھ لیتے ہوئے اسلام آباد پہنچیں گے جہاں پورے پاکستان سے لوگ مارچ میں شریک ہوں گے۔
عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے اپنے 25 مئی کے لانگ مارچ کا حوالہ بھی دیا۔ انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو ہمارے پرامن احتجاج پر تشدد کیا گیا اور انہوں نے صرف ملک کی خاطر اس لانگ مارچ کو منسوخ کیا تھا۔
لانگ مارچ کے بعد کا منظر نامہ، سیاسی بے یقینی بدستور قائم
پی ٹی آئی سربراہ نے کہا کہ اسلام آباد پہنچ کر وہ جلسہ کریں گے اور جلسہ وہاں کیا جائے گا جہاں عدالت اجازت دے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسلام آباد میں کسی سے لڑائی کرنے نہیں جا رہے ہیں اور وہ ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے۔
پی ٹی آئی سربراہ نے کہا کہ سیاست میں مذاکرات کا راستہ بند نہیں ہوتا اور ان کی جماعت اپنے مطالبات کو لے کر مذاکرات کے لئے تیار ہے۔
ضمنی انتخابات میری مقبولیت پر ریفرنڈم ہیں، عمران خان
عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان ایسے وقت کیا ہے جب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی پس پردہ بات چیت بظاہر ناکام ہو گئی۔ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی وہ فوری عام انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس حوالے سے وہ وقتا فوقتاً حکومت کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ہدف تنقید بناتے رہے ہیں۔
ج ا/ ص ز (ایجنسیاں)