پاکستان نے بڑی قربانیاں دی ہیں: ٹرمپ کی تنقید پر چین کا جواب
22 اگست 2017چینی دارالحکومت بیجنگ سے منگل بائیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کل پیر اکیس اگست کے روز اپنے ایک خطاب میں جنوبی ایشیا اور خاص طور پر افغانستان میں سلامتی سے متعلق واشنگٹن حکومت کی نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی سرزمین پر دہشت گردوں نے اپنے جو محفوظ ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں، اسلام آباد کو اس کی ’قیمت چکانا‘ ہو گی۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکا کے لیے اب یہ بات بالکل قابل قبول نہیں کہ پاکستان میں شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں قائم ہیں۔ امریکی صدر نے تنبیہ کرتے ہوئے پاکستانی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ پاکستان کو اس صورت حال میں تبدیلی کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات کرنا ہوں گے، دوسری صورت میں پاکستان ’بہت کچھ کھو بیٹھے گا‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر پاکستانی سرزمین پر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم نہ ہوئے تو واشنگٹن اسلام آباد کے لیے دفاع اور سکیورٹی سمیت کئی شعبوں میں اپنی امداد کم کر دے گا۔
ٹرمپ کی افغان پالیسی پاکستان میں زیرِ بحث
کابل امریکی امداد کو ’بلینک چیک‘ نہ سمجھے، ٹرمپ
پاکستان کو دہشت گردوں کو پناہ دینے کی قیمت چکانا ہو گی، ٹرمپ
اس پس منظر میں بیجنگ میں منگل کے روز ایک پریس بریفنگ کے دوران چینی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان سے جب ایک سوال پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا، ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان صف اول کا ملک ہے، جس نے اس جنگ میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور عظیم قربانیاں دی ہیں۔‘‘
جنوبی ایشیا کے لیے ٹرمپ کی حکمت عملی، امکانات کیا ہیں؟
کیا پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں؟
تحریک طالبان پاکستان کا ہدف پاکستانی اورمغربی تعلیم یافتہ خواتین
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان کے مطابق، ’’ہماری رائے میں بین الاقوامی برادری کو یہ بات پوری طرح تسلیم کرنا چاہیے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین اس بات پر بھی خوش ہے کہ انسداد دہشت گردی کی اس جدوجہد میں پاکستان اور امریکا باہمی احترام کی بنیادوں پر آپس میں مل کر کام کر رہے ہیں، تاکہ خطے اور مجموعی طور پر پوری دنیا میں سلامتی اور استحکام کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھایا جا سکے۔‘‘
روئٹرز کے مطابق چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہُوا چُن یِنگ نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’ہم امید کرتے ہیں کہ اس علاقے سے متعلق امریکی پالیسیاں مجموعی طور پر افغانستان اور پورے خطے میں سلامتی، استحکام اور ترقی کے عمل میں معاون ثابت ہوں گی۔‘‘