شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے، چھ شدت پسند ہلاک
12 نومبر 2010خبررساں ادارے اے ایف پی نے سکیورٹی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ یہ حملے شمالی وزیرستان میں ہوئے، جہاں انتہاپسندوں کے ایک گروپ پر چھ میزائل فائر کئے گئے۔ وہ افغانستان کے علاقے خوست کے ساتھ پاکستان کے سرحدی علاقے میں تھے، جو شمالی وزیرستان کے مرکزی علاقے میرانشاہ سے 12 کلومیٹر پر واقع ہے۔
وہاں اس ہفتےکیا جانے والا یہ دوسرا حملہ ہے۔ اتوار کو ایسی ہی ایک کارروائی میں نو مشتبہ شدت پسند مارے گئے تھے۔ رواں برس تین ستمبر سے اب تک قبائلی علاقوں پر اس نوعیت کے 40 حملے کئے گئے ہیں، جن میں تقریباً 220 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سکیورٹی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا، ’متعدد امریکی ڈرون طیاروں نے ضلع غلام خان کے قریب گلی خیل گاؤں پر چھ میزائل داغے۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ شدت پسند افغانستان سے پیدل ہی واپس آ رہے تھے۔
دوسری جانب میرانشاہ میں مقامی انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ حملے حقانی نیٹ ورک کے ایک ٹھکانے پر کئے گئے۔ خیال رہے کہ یہ گروہ القاعدہ اور طالبان سے وابستہ ہے اور اس کی قیادت شمالی وزیرستان میں ہے۔ ان پر افغانستان میں امریکی فوجیوں پر خطرناک حملوں کی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال دسمبر میں خوست میں سی آئی اے کے اہلکاروں پر خودکش حملے کا بھی الزام ہے۔
شمالی وزیرستان کا علاقہ اسلام پسندوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے، جس کے باعث ستمبر کے آغاز سے وہاں ڈرون حملوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقے کو القاعدہ کا ہیڈکوآرٹر تصور کرتے ہوئے اسے دنیا کا خطرناک ترین خطہ قرار دیتا ہے۔
امریکہ پاکستانی علاقے میں ڈرون حملوں کی تصدیق یا تردید نہیں کرتا۔ تاہم ان کارروائیوں کو افغان مشن کے تناظر میں اہم خیال کیا جاتا ہے، جس کے لئے نیٹو کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوجی افغانستان میں تعینات ہیں۔ دوسری جانب پاکستان ڈرون حملوں کو اپنی علاقائی خودمختاری کے خلاف قرار دیتا ہے۔
افغان جنگ اس وقت انتہائی خطرناک موڑ پر ہے، جس میں رواں برس کے دوران اب تک 633 غیرملکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: کشور مصطفیٰ