پاکستان میں سیلاب: ایک کروڑ بیس لاکھ متاثر
7 اگست 2010پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پخنونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ ان کے صوبے کا تمام بنیادی ڈھانچہ سیلابی پانی کی وجہ سے تباہ ہو گیا ہے۔ تعمیر نو کے لئے کھربوں روپوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے قدرتی آفات کے ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا صوبوں میں متاثرین کی تعداد بارہ ملین سے زائد ہو چکی ہے۔ پاکستانی حکام کا خیال ہے کہ بارشوں کے تھمنے اور سیلابی پانی کے اترنے کے بعد نقصانات کا درست اندازہ لگایا جا سکے گا اور اس عمل میں ڈیڑھ دو ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
اندازوں کے مطابق سیلاب سے سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ پر پانچ ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ مختلف ڈیموں اور وہاں قائم تنصیبات کا نقصان ڈھائی ارب سے تجاوز کرچکا ہے۔ متعلقہ حکام کے مطابق دریاؤں میں پیدا شدہ سیلاب سے چودہ لاکھ ایکڑ اراضی بھی متاثر ہوئی ہے۔ سیلابی پانی کی نذر ہونے والے مال مویشی کا ابھی اندازہ لگانا باقی ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق اب تک پانی کے ریلوں میں بہہ جانے والی گائیں اور بھینسوں کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔
پاکستان میں بارشوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور اس باعث مزید سیلاب کا خطرہ قائم ہے۔ پشاور، نوشہرہ اور قریبی علاقوں میں مزید بارشوں کی پشینگوئی کی گئی ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جمعہ کو شدید بارشوں سے ہلاکتیں رپورٹ کی گئی ہیں۔
صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقوں میں سیلاب سے کئی قصبات اور دیہات بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے کئی پاور پلانٹ بند کر دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی عوام کو بجلی کی مزید کمی کا سامنا ہے۔ پاکستانی فوج بھی سیلاب میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے عمل میں مصروف ہے۔
پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ کے ساتھ ساتھ بلوچستان کو بھی شدید بارشوں کا سامنا ہے اور وہاں سو سالہ پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ بارکھان، کویلو اور نصیرآباد میں کئی بند سیلابی پانی سے ٹوٹ چکے ہیں۔ بائیس جولائی سے شروع ہونے والی بارشوں میں وہاں اب تک ساٹھ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دو دنوں میں بارکھان اور سبی اضلاع میں موسلادھار بارش جاری ہے۔
پاکستانی دریاؤں کا لاکھوں کیوسک پانی دریائے سندھ میں شامل ہو چکا ہے اور سکھر سے گزرتا ہوا حیدا آباد کی جانب بڑھنے لگا ہے۔ سندھ میں دریا کے کنارے آباد افراد کو محفوظ مقام تک منتقل کرنے کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق سکھر بیراج کو بظاہر کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن سیلاب کے زور سے اگر کناروں پر قائم پشتے ٹوٹ گئے تو سکھر کے گردو نواح میں پانی تباہی پھیلا سکتا ہے۔
خیموں میں مقیم افراد کو بے شمار گلے شکوے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حکومتی امداد ناکافی ہے اور سیلاب کے دوران اور بعد کی صورت حال میں حکومت دکھاوے میں مصروف ہے اور خیموں کے لوگ سرکار کی لاتعلقی کا رونا بھی رو رہے ہیں۔ ان افراد کو پینے کے صاف پانی میسر نہیں۔ خوراک ناکافی بتائی جاتی ہے۔ حکومت نے متاثرین کے لئے مدافعتی ویکسین کے عارضی دفاتر کھولنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
سیلاب کا براہ راست اثر تو انسانی بستیوں اور افراد پر ہے لیکن دور رس اثرات کے تحت پاکستان کی کمزور اقتصادیات کو انتہائی زیادہ پیچیدگیوں کا سامنا ہوگا۔ سیلاب سے پاکستانی معیشت کی حالت زبوں تر ہو سکتی ہے ۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف بلوچ