بارودی سرنگیں صاف کرتیں سری لنکن خواتین
15 دسمبر 2024یہ کام ان خواتین کے لیے اپنے خاندانوں کی کفالت کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔
اڑتالیس سالہ شیواکمار چندرادیوی کا کہنا ہے کہ، ’’یہاں کام کرنا واقعی بہت مشکل ہے اور ان تمام حالات میں اپنی ٹیم کا خیال رکھنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔‘‘
چندرادیوی اور ان کی ٹیم بہت احتیاط کے ساتھ ان سرنگوں سے دھماکہ خیز مواد نکالتی ہے۔ یہ بارودی سرنگیں اس جنگ کی باقیات ہیں جس میں ایک لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
امن کی بحالی کے لیے کوشاں
چھبیس سال تک جاری رہنے والی خانہ جنگی میں سری لنکن فوج اور تمل باغی تنظیم جنہیں تمل ٹائیگرز بھی کہا جاتا ہے، نے ایک دوسرے کے خلاف جنگی حکمت عملی کے طور پر بارودی سرنگیں بچھائی تھیں۔
سنہ 2009 میں تمل ٹائیگرز کی شکست کے ساتھ جنگ کے اختتام کے باوجود، یہ بارودی سرنگیں اب بھی شہریوں کے لیے ایک سنگین خطرہ بنی ہوئی ہیں۔
سینتالیس سالہ سندرمورتی سسیریکا کہتی ہیں، ’’اگر ہم نے یہ بارودی سرنگیں صاف کر دیں، تو ہزاروں لوگوں کو ان کا روزگار واپس مل جائے گا۔‘‘
خانہ جنگی کی بدولت پیدا ہونے والی صورتحال نے سندرمورتی سسیریکا کی زندگی پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ تاہم، انہوں نے جو مصائب جھیلے، اس نے انہیں مزید مضبوط اور باہمت بنا دیا ہے۔
وہ اس کام کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے اور والدہ کی دیکھ بھال بھی کرتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ خواتین تھوڑی سی ہمت اور عزم سے زندگی کی ہر مشکل کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔
برسوں سے لاپتہ پیاروں کی منتظر
جنگ کے دوران 20000 سے زائد افراد لاپتہ ہوئے تھے، جن میں اکثریت کا تعلق تمل برادری سے تھا۔ 2020 میں سری لنکا کی حکومت نے ان تمام گمشدہ افراد کو مردہ قرار دے دیا تھا، جس پر ان کے خاندانوں میں شدید مایوسی کی لہر دوڑ گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے مطابق، سری لنکا کی سکیورٹی فورسز اور تمل ٹائیگرز جیسے مسلح گروہ اپنے مخالفین کو خوفزدہ کرنے کے لیے لوگوں کو لاپتہ کردیا کرتے تھے۔
چوہتر سالہ ناڈراجہ سیوارنجنی کے بیٹے اور پوتی 2009 میں لاپتہ ہو گئے تھے۔ اپنے پیاروں کی تصاویر ہاتھ میں پکڑے، وہ حکومت کی طرف سے دیے جانے والے معاوضے کی پیشکش پر سوال کرتی ہیں کہ، ’’کیا ایک ماں اپنے لاپتہ بچوں کی جگہ کوئی معاوضہ قبول کرے گی؟‘‘
متاثرین کی قانونی جدوجہد
سری لنکا کی حکومت نے مفاہمت اور امن کے لیے جو وعدے کیے تھے، ان پر بھی لوگوں کو یقین نہیں ہے۔ حال ہی میں صدر انورا کمارا ڈسانائیکے نے بھی تمل برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان کی مقبوضہ زمینیں واپس دلوانے کا اعلان کیا ہے۔
سری لنکا کے علاقے ملائیتھیوو میں کچھ لوگ اپنی زمینیں واپس حاصل کرنے کے لیے قانونی جدوجہد کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے وکیل وی ایس ایس تھانچایان نے بتایا کہ، کسان، ماہی گیر، اور دیگر غریب افراد ان کے پاس شکایتیں لے کر آتے ہیں کہ کسی ریاستی محکمے نے ان کی زمین پر دعوٰی دائر کر رکھا ہے۔ ان کے پاس کھیتی باڑی کے لیے زمین نہیں بچی، جو ان کے روزگار کا واحد ذریعہ تھی۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کے دستاویزات 2004 کے سونامی اور 2009 کے فسادات کے دوران ضائع ہوگئے تھے جس کے باعث ان کے لیے عدالت میں ان زمینوں پر اپنی ملکیت ثابت کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔
سری لنکا کے مشرقی اور شمالی علاقوں میں تمل کسانوں اور سماجی کارکنوں کی کئی زمینوں پر ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں قبضہ کیا جاچکا ہے۔
جنگ کے آخری مراحل میں سری لنکا کی فوج اور تمل ٹائیگرز نے قتل، جبری گمشدگیاں اور جنسی تشدد جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا۔ اقوام متحدہ کے پاس ان جنگی جرائم کی تفصیلات موجود ہیں۔ تاہم مختلف حکومتیں اس مسئلے کو داخلی امور قرار دیتے ہوئے ان جنگی جرائم کی آزادانہ تحقیقات کے لیے ٹریبونل کے قیام کے مطالبات کو مسترد کرتی آئی ہیں۔
ذہنی صحت بھی متاثر
جنگوں کے اثرات صرف جسمانی طور پر نہیں بلکہ ذہنی اور جذباتی طور پر بھی دیرپا ہوتے ہیں۔
اس جنگ سے متاثر ہونے والے دیگر افراد کی طرح چندرا دیوی بھی اپنے پیاروں سے دوبارہ ملنے کی امید کے سہارے جی رہی ہیں۔ ان کے شوہر اور بیٹے کی گمشدگی نے ان کی ذہنی صحت کو بھی شدید متاثر کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی خوشی کا کوئی لمحہ نہیں دیکھا۔ ان کے لیے سکون کا واحد ذریعہ ان کا کام ہے، کیونکہ اگر وہ کام نہ کرتیں تو ان کے لیے یہ سب برداشت کرنا ناممکن ہو جاتا۔
ح ف ⁄ ج ا (آکانکشا سکسینہ)